امریکا: ایک سیاہ فام کی ہلاکت پر شارلیٹ شہر میدانِ جنگ
22 ستمبر 2016شارلیٹ کی آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس شہر کے پینتیس فیصد شہری سیاہ فام ہیں۔ اسی شہر میں منگل کے روز ایک سیاہ فام پولیس اہلکار برینٹلی وِنسن نے ایک تینتالیس سالہ سیاہ فام کِیتھ لیمنٹ سکاٹ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
مختلف نیوز ایجنسیوں کی متفقہ رپورٹوں کے مطابق اس سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد اُس کی یاد میں جو مذہبی سروس منعقد کی گئی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک پُر تشدد مظاہرے میں بدل گئی۔
دن کو شروع ہونے والے ہنگامے رات بھر بھی جاری رہے۔ مظاہروں کے دوران ایک شخص کے گولی لگنے سے شدید زخمی ہونے کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ گو پولیس مسلسل اس بات سے انکار کر رہی ہے کہ اُس نے مظاہرین پر گولی چلائی تاہم عام لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ شدید زخمی ہونے والے شخص پر پولیس ہی نے گولی چلائی تھی۔
شمالی کیرولینا کے گورنر پَیٹ میک کروری نے، جو گورنر بننے سے پہلے چَودہ سال تک اس شہر کے میئر رہے تھے، گزشتہ رات شہر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا اور پولیس چیف کی جانب سے مزید مدد مانگے جانے کے بعد نیشنل گارڈز بھی طلب کر لیے۔ گورنر میک کروری نے کہا کہ شہر کی یہ حالت دیکھ کر اُن کا ’دل خون کے آنسو رو رہا ہے‘۔
بتایا گیا ہے کہ بدھ کو سینکڑوں مظاہرین اس طرح کے نعرے لگا رہے تھے کہ ’سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی قیمتی ہیں‘ اور یہ کہ ’ہینڈز اَپ نہ کہ شُوٹ اَپ‘۔ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال کے بعد زیادہ تر مظاہرین منتشر ہو گئے لیکن چند گروپ باقی رہ گئے، جنہوں نے صحافیوں اور دیگر افراد پر حملے کیے، ریستورانوں، ہوٹلوں اور دفاتر کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے اور یہاں وہاں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو آگ لگاتے رہے۔
پولیس نے سیاہ فام سکاٹ کی ہلاکت کی کوئی فوٹیج جاری نہیں کی، جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سکاٹ کے پاس ایک گن تھی اور بار بار کہے جانے کے باوجود اُس نے ہتھیار نیچے رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔
سکاٹ کے اہلِ خانہ اور پڑوسیوں کا موقف یہ ہے کہ کوئی ہتھیار نہیں بلکہ ایک کتاب اُس کے ہاتھ میں تھی جبکہ پولیس کا کہنا یہ ہے کہ سکاٹ کے قریب سے کوئی کتاب نہیں بلکہ ایک ہتھیار ملا ہے۔ اسی دوران پولیس پر کِیتھ لیمنٹ سکاٹ کی ہلاکت کی ویڈیو جاری کرنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے۔