1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: جبری علیحدگی، ’اپنے والدین کو پکارتے بچے‘

19 جون 2018

حال ہی میں سامنے آنے والی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں ایک چھوٹا بچہ ہسپانوی زبان میں اپنے والدین کو پکار رہا ہے۔ یہ ان تقریباً دو ہزار بچوں میں سے  ایک ہے، جنہیں امریکی امیگریشن مرکز میں ان کے والدین سے  جدا کر کے رکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2zq8p
Grenze Mexiko USA Mutter und Kind
تصویر: Getty Images/J. Moore

’’پاپا، پاپا‘‘ اس آڈیو ریکارڈنگ میں ایک بچہ روتا ہوا اپنے والد کو پکار رہا ہے۔ یہ آڈیو ریکارڈنگ پہلی مرتبہ ’پروپبلیکا‘ نامی ایک فلاحی تنظیم نے جاری کی تھی، جسے بعد میں خبر رساں ادارےایسوسی ایٹڈ پریس کو فراہم کیا گیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر قانونی تارکین وطن سے ان کے بچوں کے الگ کرنے کی پالیسی کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس طرح اب تک کم از کم دو ہزار بچوں کو ان کے والدین سے جبری طور پر علیحدہ کرتے ہوئے ایک طرح کی حراست میں رکھا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن جینیفر ہاربری نے بتایا ہے کہ خفیہ ذرائع سے انہیں یہ ریکارڈنگ ملی ہے، جو گزشتہ ہفتے کی ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس روتے ہوئے بچے کو کس مرکز میں رکھا گیا ہے۔

قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی سکریٹری کرسٹین نیلسن نے کہا کہ انہوں نے یہ ریکارڈنگ سنی تو نہیں ہے لیکن انہیں یہ علم ضرور ہے کہ حراست میں لیے جانے والے بچوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول کانگریس کو اس قانون میں موجود خامیوں کو جلد از جلد دور کرنا چاہیے تاکہ خاندان ایک ساتھ رہ سکیں۔

مارمن کلیسا امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر خاندانوں کو الگ کرنے  کے واقعات کو ایک بڑی پریشانی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ کلیسا نے ملکی سیاستدانوں سے اس مسئلے کا ایک ہمدردانہ حل تلاش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے سینٹیر ٹیڈ کروز نے پیر کو رات دیر گئے اعلان کیا کہ وہ   ہنگامی طور پر ایک قانون متعارف کرانے جا رہے ہیں، جس سے تارکین وطن خاندانوں کا ایک ساتھ رہنا ممکن ہو سکے گا۔ کروز کے بقول، ’’ تمام امریکی اُن تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد خوفزدہ ہیں، جن میں روتے ہوئے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کیا جا رہا ہے۔‘‘