امریکہ اور بھارت کی مشترکہ فوجی مشقوں پر چین کا اعتراض
26 اگست 2022چین نے سرحد کے پاس بھارت اور امریکہ کی فوجوں کی مجوزہ مشترکہ فوجی مشقوں پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو طرفہ سرحدی تنازعے میں کسی بھی تیسرے فریق کی جانب سے کسی بھی نوعیت کی مداخلت کا سخت مخالف ہے۔
ادھر بھارت نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے پاس بلند ترین پہاڑیوں پر امریکہ کے ساتھ اس کی مشترکہ فوجی مشقوں کا ہدف چین نہیں ہے اور ایل سی کی صورت حال سے "بالکل مختلف" معاملہ ہے۔
بھارت اور امریکہ چین کی سرحد کے قریب اتراکھنڈ کے اولی علاقے میں 'یودھ ابھیاس' یعنی جنگی مشقوں کی ایک سیریز کا انعقاد کرنے والے ہیں۔ حکام کے مطابق اس کا آغاز 18 اکتوبر سے ہو گا اور یہ 31 اکتوبر تک جاری رہيں گی۔
یہ بھارت چین کی سرحد پر ان پہاڑی علاقوں میں ہو گی، جہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران عسکری اثاثوں میں زبردست اضافے کے ساتھ ہی فوجیوں کی تعیناتی میں بھی زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارت کا کیا کہنا ہے؟
گزشتہ روز چین اور بھارت دونوں ہی کی جانب سے اس موضوع پر بیان سامنے آیا۔ پہلے چین نے اس مشترکہ فوجی مشق کو سرحدی معاملے میں تیسرے فریق کی مداخلت قرار دیا، تو بھارت نے اپنے رد عمل میں کہا کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب فوجی مشقیں ایل اے سی کی صورتحال سے، "بالکل مختلف" معاملہ ہے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ اس حوالے سے دونوں فریقوں کو ماضی کے معاہدوں پر قائم رہنا چاہیے،’’میں تیسرے فریق کی مداخلت کا حوالہ ہی نہیں سمجھ سکا۔ بھارت اور امریکی مشقیں بالکل مختلف ہیں اور میں نہیں جانتا کہ اس کو کیا رنگ دیا گیا ہے۔ یہ نشانہ بنانے کی بات ہے اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
کشمیر: بھارت کا مقابلہ اب پاکستان کے بجائے چین سے
بھارتی ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان مشترکہ فوجی مشقوں کا مقصد چین کو نشانہ بنانا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے سرحدی تنازعے سے متعلق ماضی کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
چین نے اس حوالے سے کیا کہا؟
اس سے قبل جمعرات کے روز ہی چین نے متنازعہ چین بھارت سرحد کے قریب امریکہ-بھارت مشترکہ فوجی مشق کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو طرفہ سرحدی معاملے میں مداخلت کے ساتھ ہی نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
چینی وزارت دفاع کے قومی ترجمان کرنل ٹین کیفی سے بیجنگ میں ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کے دوران جب امریکہ۔بھارت مشترکہ فوجی مشقوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، "ہم چین بھارت سرحدی معاملے میں کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کے سخت مخالف ہیں۔"
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اقتصادی راہداری: بھارت سیخ پا
چینی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چین بھارت سرحدی تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان کا مسئلہ ہے اور جہاں فریقین نے ہر سطح پر موثر رابطے برقرار رکھے ہیں، وہیں دو طرفہ بات چیت کے ذریعے صورتحال کو مناسب طریقے سے سنبھالنے پر بھی اتفاق کر رکھا ہے۔
ٹین کیفی نے زور دیکر کہا کہ سرحدی تنازعے سے متعلق سن 1993 اور 1996 میں چین اور بھارت کے درمیان جو معاہدہ طے پا یا تھا اس کی روشنی میں، لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریبی علاقوں میں کسی بھی فریق کو دوسرے کے خلاف فوجی مشق کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ترجمان نے بھارت سے اپنے وعدوں پر قائم رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، "امید ہے کہ بھارت دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے سے طے پانے والے متعلقہ معاہدوں کی سختی سے پابندی کرے گا اور دو طرفہ چینلز کے ذریعے سرحدی مسائل کو حل کرنے کے اپنے عزم کو برقرار رکھے گا۔ وہ عملی طور پر سرحدی علاقے میں امن و سکون برقرار رکھنے کے اقدامات کرے گا۔"
دیرینہ سرحدی تنازعہ
بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔
ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ دو برس سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پچھلے برس پندرہ جون کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔