امریکہ اور روس کے درمیان جاسوسوں کا تبادلہ
9 جولائی 2010امریکی حکومت کی جانب سے جمعرات کو بتایا گیا کہ امریکہ میں دَس روسی جاسوسوں کی گرفتاری کے بعد دو ہفتے سے بھی کم مدت کے اندر اندر دونوں ممالک کی حکومتیں اِس مسئلے کے حل پر متفق ہو گئی ہیں۔
ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان قیدیوں کے اِس تبادلے کی راہ ہموار کرنے کے لئے امریکہ میں گرفتار شُدہ جاسوسوں نے نیویارک کی ایک عدالت میں یہ اعتراف کر لیا کہ وہ امریکہ میں روس کے لئے جاسوسی میں مصروف تھے۔ اِس پر عدالت نے اُنہیں کوئی سزا دینے کی بجائے یہ احکامات جاری کئے کہ اُنہیں فوری طور پر ملک سے نکال دیا جائے اور یہ کہ یہ افراد پھر کبھی امریکہ واپس آنے کی کوشش نہ کریں۔ اِس حکم کا اطلاق پیرُو سے تعلق رکھنے والی خاتون وکی پیلیز پر بھی ہو گا، جس کے پاس امریکی شہریت بھی ہے۔
جاسوسی کے الزام میں اِن افراد کو پانچ سال تک کی سزائے قید ہو سکتی تھی تاہم استغاثہ کے وکلاء نے اِن افراد کو کالے دھن کو جائز آمدنی میں بدلنے کی سازش کا بھی قصوروار قرار دیا تھا، جس کے لئے سزائے قید کی مدت بیس سال تک ہے۔
امریکہ میں گرفتار ہونے والے جاسوسوں کا تعلق ایک ایسے گیارہ رُکنی گروہ سے تھا، جو نوے کے عشرے سے روس کے لئے امریکہ میں جاسوسی کر رہا تھا۔ دَس مردوں اور خواتین کو ایک ہفتہ قبل نیویارک، بوسٹن اور ورجینیا سے حراست میں لیا گیا تھا۔ ایک اور مرد قبرص میں پکڑا گیا لیکن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے ایجنٹوں کے اِس فوری تبادلے کا جواز بتاتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ’قومی سلامتی‘ اور ’انسانی پہلوؤں‘ کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ اس تبادلے کی صورت میں روس میں قید اُن چار افراد کی رہائی ممکن ہو سکے گی، جنہیں مغربی دُنیا کے لئے جاسوسی کرنے کی پاداش میں سزا ہو چکی ہے اور جو قید کی طویل سزائیں بھگت رہے ہیں۔ ٹونر نے کہا کہ اِن میں سے چند ایک کی صحت بھی اچھی نہیں ہے۔
نیویارک کی عدالت کا فیصلہ سامنے آتے ہی روسی صدر دمتری میدویدیف نے ’مغربی خفیہ اداروں کے ساتھ روابط‘ رکھنے کے الزام میں قید افراد کو معافی دینے کا اعلان کر دیا۔ مبینہ طور پر اپنے جرائم کا اعتراف کر لینے والے اِن قیدیوں میں اسلحے کا ماہر ایگور سُتیاگین بھی شامل ہے، جسے سن 2004ء میں اِس بناء پر 15 سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا کہ اُس نے برطانیہ میں سی آئی اے کی ایک جعلی فرم کے بارے میں خفیہ دستاویزات امریکہ کے حوالے کی تھیں۔
ماسکو حکومت کا کہنا ہے کہ ایجنٹوں کا یہ تبادلہ امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر دمتری میدویدیف کے درمیان پائے جانے والے گہرے اعتماد کی وجہ سے عمل میں آ رہا ہے۔
رپورٹ : امجد علی
ادارت : شادی خان سیف