امریکہ میں’روسی جاسوس‘ اور ماسکوکا سخت ردعمل
29 جون 2010امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے دس مبینہ روسی جاسوسوں کو حراست میں لیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکی پالیسی ساز اداروں تک رسائی حاصل کرنے کے بعد واشنگٹن کی خارجہ اور جوہری پالیسی سمیت کئی اہم امور کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی کوششیں کیں۔ حراست میں لئے گئے تمام افراد پر روس کے لئے جاسوسی کرنے کا الزام ہے۔
روسی وزارتِ خارجہ نے امریکی محکمہء انصاف کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی مذمت کی ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے امریکہ سے ان الزامات کے حوالے سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ در پردہ مقاصد کے حصول کے لئے لگائے گئے ہیں:’’ان الزامات کے حوالے سے جو معلومات سامنے آئی ہیں، اُن میں بہت سے تضادات ہیں۔‘‘
ان مبینہ جاسوسوں میں سے پانچ کو پیر کے دن نیویارک کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، جن میں سے کچھ بظاہر روسی شہری لگ رہے تھے۔ جج جیمز کوٹ نے حکم دیا کہ ان ملزمان کو ابتدائی سماعت تک حراست میں رکھا جائے، جو کہ 27 جولائی کو شروع ہونے والی ہے۔
امریکی حکام کے مطابق ایف بی آئی دس برس سے زائد عرصے سے اس مبینہ جاسوسی گروہ کی سخت نگرانی کر رہی تھی۔ محکمہء انصاف کی چارج شیٹ کے مطابق اِن میں سے ایک مبینہ جاسوس ایک امریکی جوہری سائنسدان سے ملا اور اُس سے نیوکلیئر بنکر بسٹر بموں پر ہونے والی تحقیق کے بارے میں استفسار کیا۔ محکمہء انصاف نے اِس امریکی سائنس دان کا نام ظاہر نہیں کیا۔ اس تحقیق کی تجویزسابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں دی گئی تھی لیکن اِنہیں تیار نہیں کیا گیا۔
امریکہ کی چار شمال مشرقی ریاستوں میں یہ گرفتاریاں اتوار کے روز ایک ایسے موقع پر عمل میں آئیں، جب صرف تین دن پہلے امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب کو ایک قابلِ اعتبار ساتھی قرار دیا تھا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار ہوتے ہوئے تعلقات میں اس واقعے کی وجہ سے بہت تلخی پیدا ہوگئی ہے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: امجد علی