امریکہ میں صدر اوباما کے خلاف تارکین وطن کے مظاہرے
17 اگست 2011مظاہرین نے باراک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کے دفاتر کے باہر ریاست میامی، شکاگو، بوسٹن، ہیوسٹن اور اٹلانٹا میں مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے واشنگٹن انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ فنگر پرنٹس شیئرنگ کے وفاقی قانون کو ختم کرے کیونکہ یہ تارکین وطن کی بے دخلی میں کلیدی کردار نبھا رہا ہے۔
مظاہرے میں شریک ایک تنظیم Presente.org سے وابستہ فیلپ ماٹُس کے مطابق جب سے باراک اوباما نے اقتدار سنبھالا ہے دس لاکھ سے زائد تارکین وطن کو بے دخل کیا جا چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ سے اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کی بے دخلی کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔
مبصرین کی رائے میں اس ضمن میں امریکی صدر باراک اوباما کی پالیسیاں ان سے ہسپانوی، ایشیائی اور افریقی نژاد ووٹروں کی دوری کا سبب بن سکتی ہیں۔ تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد نے 2008ء کے صدارتی انتخابات میں اوباما کا ساتھ دیا تھا اور اب 2012ء کے صدارتی انتخابات کے لیے بھی ان ووٹروں کی اہمیت ناقابل فراموش ہے۔ ایسی ہی ایک ہسپانوی نژاد سماجی کارکن ماریا روڈریگیز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کہ امریکی حکام کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ نازی فوج کی طرز پر تارکین وطن کے خلاف کارروائی کریں۔
مظاہرے میں شریک ایک نوجوان طالب علم ڈیئیگو سانچیز کے بقول ایسا ممکن نہیں کہ امریکی صدر اپنی پالیسیوں پر عملدر آمد کرکے خاندانوں کو تقسیم کرتے رہیں اور ہسپانوی برادری خاموش تماشائی بنی رہے۔ ان کا اشارہ Dream Act کی جانب ہے جو ابھی کانگریس میں زیر التوا ہے۔
اس کے تحت مکمل امریکی دستاویزات نہ رکھنے والے طالب علموں کو امریکہ میں مشروط مستقل رہائش کی اجازت دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ امریکی صدر تارکین وطن سے متعلق قوانین میں جامع اصلاحات کے خواہش مند ہیں، جن میں سرحدوں پر سکیورٹی سخت کرنے اور قریب 11 ملین ایسے تارکین وطن کے لیے امریکی شہریت کی راہ ہموار کرنا شامل ہیں، جن کے پاس مکمل دستاویزات موجود نہیں۔ اوباما کے مخالفین ری پبلکنز کا موقف ہے کہ حکومت نے میکسیکو کے ساتھ ملحقہ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھائے اور یہ مجوزہ قانون غیر قانونی تارکین وطن کے لیے امریکی شہریت کا حصول آسان کر دے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: حماد کیانی