امریکہ کے ساتھ جوہری بات چیت پر پاکستان کا اطمینان
26 مارچ 2010پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکی حکام سے ہونے والی ملاقات میں نیوکلیئر تعاون، ایٹمی عدم پھیلاؤ اور برآمدات کے کنٹرول پر بات ہوئی، جو بہت اچھی رہی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر تعاون کے موضوع پر وہ فی الحال زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتے۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ پاکستان کس طرح کے تعاون کا خواہاں ہے۔
تاہم خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق واشنگٹن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے پاکستان کے ساتھ نیوکلیئر سویلین تعاون کے معاہدے کو خارج از امکاں قرار دیا ہے۔ اس عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کو نیوکلیئر تعاون کے حوالے سے پاکستانی وفد کا مؤقف سنجیدگی سے سنا گیا ہے، تاہم باقاعدہ مذاکرات کا امکان نہیں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران نیوکلیئر سویلین تعاون پر کیا بات ہوئی۔ انہوں نے صرف اتنا بتایا کہ مذاکرات کا ایجنڈا وسیع تر تھا اور اس دوران متعدد پیچیدہ معاملات پر بھی بات ہوئی۔
انہوں نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ واشنگٹن انتظامیہ نے مہمان وفد کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہر نکتے پر غور کا عندیہ دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات میں اس کا ساتھ دینے میں سنجیدہ ہے۔
ہلیری کلنٹن ان مذاکرات کے پہلے روز یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ گزشتہ برس سے اوباما انتظامیہ نے پاکستان کے لئے ایک مختلف رویہ دکھایا ہے، جو صدر اوباما کی ذاتی ترجیح ہے اور رہے گی۔
خیال رہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ نیوکلیئر سویلین تعاون کا معاہدہ کر چکا ہے اور اسلام آباد حکومت بھی واشنگٹن کے ساتھ سویلین نیوکلیئر تعاون چاہتی ہے۔ تاہم امریکہ اس حوالے سے باقاعدہ بات چیت سے احتراز کرتا رہا ہے۔
تاہم پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کے اختتام پر جمعرت کو جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیے میں امریکی حکام نے کہا کہ اسلام آباد حکومت کے تجارتی مفاد کے لئے کوششیں کی جائیں گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس حوالے سے قانون سازی کے لئے کانگریس پر بھی زور دیا جائے گا۔
تاہم اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کی کونسی مصنوعات کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان ٹیکسٹائل سمیت متعدد مصنوعات کے لئے کم سے کم ٹیرف پر زور دیتا رہا ہے۔ اس کا مؤقف رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں اس کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے تناظر میں یہ سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔
دوسری جانب امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ فی الحال ایجنڈے پر نہیں ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کو مخصوص تجارتی شعبوں میں سہولت دینے کے لئےامریکی کانگریس میں قانون سازی کا عمل رکا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین دو روزہ اعلیٰ سطحی مذاکرات کا مقصد باہمی تعلقات کا فروغ تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: افسر اعوان