امریکی انتخابات: عمران خان کے حامی ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی کیوں؟
26 اکتوبر 2024دوسال قبل جب سابق وزیراعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا تو انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف کی جانے والی سازش میں بااثر فوجی جرنیل اور واشنگٹن ملوث ہے۔ ماہرین کے مطابق عمران خان کا یہ دعوٰی بے بنیاد تھا لیکن ان کے حامی اس پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔
واشنگٹن میں مقیم پاکستانی تجزیہ کار رضا رومی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکہ ماضی میں پاکستان کی خارجہ اور سلامتی پالیسیوں میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ماننا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست میں مداخلت کرسکتا ہے۔"
عمران خان کے حامی خاص طور پر امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو ان کے مطابق عمران خان کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
ٹرمپ اور عمران خان کے تعلقات
مبصرین کا ماننا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کا انداز سیاست یکساں ہے۔ وہ دونوں ہی پاپولسٹ سیاستدان ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے روایتی سیاسی نظام کا حصہ نہیں ہیں۔
رضا رومی کہتے ہیں کہ اب پی ٹی آئی کے حامی پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی فتح پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ٹرمپ صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ پاکستانی فوج پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ عمران خان کے حامی ہیں کیونکہ انہوں نے عمران خان کو وائٹ ہاؤس مدعو کیا اور بعد میں اپنی ایک تقریر میں خان کی تعریف بھی کی۔
مشرق وسطٰی میں مقیم عمران خان کے حامی اور صحافی جمی ورک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ملک میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے کافی قریب ہیں۔ ٹرمپ نے بھی اس کا اظہار امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے افراد سے ملاقات سمیت مختلف مواقعوں پر کیا ہے۔ ان کے خان کے ساتھ مثبت تعلقات رہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ کو ایسے رہنما پسند ہیں جو اپنی قوموں کی قیادت 'مضبوطی‘ سے کرتے ہیں۔
پاکستانی نژاد امریکیوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم نے گزشتہ ہفتے ٹرمپ کی بطور صدارتی امیدوار حمایت کردی ہے۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ بائیڈن کے دور حکومت میں کچھ ایسے قانونی اقدامات کیے گئے جو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنے۔ بائیڈن انتظامیہ مسلسل ان الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔
کیا ٹرمپ عمران خان کی مشکلات کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں؟
رضا رومی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ماضی کے برعکس، جب پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ایک اہم اتحادی سمجھا جاتا تھا یا سرد جنگ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، دفاعی، اور اقتصادی تعاون کے لیے معاہدے ہوتے تھے، آج پاکستان کو امریکہ سے کوئی براہ راست فوجی امداد نہیں مل رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، "امریکہ براہِ راست اقدامات کیے بغیر، مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ یہ ادارے پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے بہت اہم ہیں۔ تاہم اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ ان ذرائع کا استعمال کریں گے۔"
عمران خان کے حامی جمی ورک نے بتایا کہ پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی ٹرمپ کی انتخابی مہم سے منسلک ہوگئی ہے اور انہوں نے ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کے بجائے ٹرمپ کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور جنگوں کے خلاف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے ممالک میں ایسے آپریشنز کے بھی خلاف ہیں جس کا مقصد ان میں موجود حکومتوں کو طاقت کے ذریعے تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ ریپبلکن پارٹی کے دور حکومت میں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔
ماریہ کے مطابق امریکی انتخابات میں فیصلہ امریکی عوام کرتے ہیں۔ چونکہ ریپبلکن پارٹی کے دور میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات زیادہ مستحکم رہے ہیں اس لیے پاکستانی عوام امید کر رہے ہیں کہ دوبارہ صدر بننے کی صورت میں ٹرمپ دونوں ممالک کے درمیان استحکام کا ایک نیا دور لے آئیں گے۔
مشرق وسطٰی کے تنازعات اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت
مشرق وسطٰی کی غیر مستحکم صورتحال اور ایران اور اسرائیل کے مابین جاری تنازعہ کے باعث پاکستان کے پڑوس ممالک میں سیکیورٹی کے حالات ایک بار پھر بین الاقوامی برادری کے لیے انتہائی اہم ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان کی فوجی قیادت کا کردار اب امریکہ کے لیے عمران خان یا کسی بھی دوسرے سیاست دان سے زیادہ اہم ہے۔
متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی تجزیہ کار علی کے چشتی کے مطابق مشرق وسطٰی میں جاری تنازع میں شدت آنے کے بعد پاکستانی کی فوجی قیادت کے سعودی عرب کے مابین تعاون اور تعامل بڑھ گیا ہے۔
واشنگٹن اسلام آباد کو تہران کے خلاف کسی بھی ممکنہ تصادم کی صورت میں ایک اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین اس حوالے سے ہونے والی بات چیت کے دوران ایک طرح کا سمجھوتہ ہے۔ جہاں تک بات ہے امریکی انتخابات کی، تو اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو نئی حکومت پاکستان سے تعلقات قائم کرے گی قطع نظر اس کے کہ وہاں کس سیاسی جماعت یا رہنما کی حکومت ہے۔
شامل شمس (ح ف / ر ب)