امریکی شہری کے کیس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جواب طلب
31 جنوری 2011سوموار کوجسٹس اعجاز احمد چوہدری پر مشتمل عدالت نے اس حوالے سے دائر کی جانے والی جن درخواستوں کی سماعت کی ان میں امریکی شہری ریمونڈ ڈیوس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے، سانحہ مزنگ کی عدالتی تحقیقات کروانے نیز مذکورہ امریکی شہری کو پنجاب سے باہر نہ لیجانے کے احکامات صادر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
ایک درخواست گزار بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بزنس ویزے پر پاکستان آنے والا یہ امریکی شہری دراصل امریکی ایجنسی ایف بی آئی کا ایجنٹ ہے جو خفیہ مشن پر پاکستان آیا تھا، ان کے مطابق اگر امریکی شہری کو سفارت کار مان لیا جائے تو بھی ویانا کنونشن کسی سفارت کار کو پاکستانیوں کو ہلاک کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ ان کے مطابق اگر پاکستانیوں کو امریکی شہری نے اپنے دفاع میں بھی قتل کیا ہے تو اسے یہ بات عدالت میں ثابت کرنا ہوگی۔
پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اکرم زکی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے حال ہی میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے لکھا گیا ایک خط جاری کیا ہے جس میں اس امریکی شہرے کے لیے نان ڈپلومیٹک کارڈ جاری کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ان کے مطابق عام طور پر باقاعدہ سفارتی خدمات سرانجام دینے والے سفارت کاروں کو ہی عدالتی چارہ جوئی سے مکمل استثناء حاصل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق لوگوں کو قتل کرنا یا عوامی مقامات پر شوٹنگ کرنا سفارت کاروں کے فرائض میں شامل نہیں ہوتا، ان کے بقول یہ کہانی بڑی عجیب لگتی ہے کہ مزنگ چونگی کے گنجان علاقے میں ایک گاڑی سوار کو موٹر سائیکل سوار روکنے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ اس کام کے لیے کم از کم دو گاڑیاں ضرور ہونی چاہیے تھیں، بعض لوگ اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکی شہری کی اپنے دفاع میں چلائی جانے والی گولیاں موٹر سائیکل سواروں کی کمر پر کیوں لگیں۔
اکرم زکی کے مطابق اس کیس کا فیصلہ عدالت کو ہی کرنے دینا چاہیے۔ ادھر پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے زور دے کر کہا ہے کہ ریمونڈ ڈیوس کے معاملے پر کسی سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی، ان کے مطابق امریکی شہری کو سفارتی استثناء دینے یا نہ دینے کا فیصلہ وفاقی حکومت نے کرنا ہے۔
ادھر تھانہ لٹن روڈ پولیس نے امریکی شہری کے خلاف ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں ایک اور مقدمہ درج کر لیا ہے۔ایس پی سول لائینز عمر سعید کے مطابق پنجاب حکومت نے پولیس حکام پر امریکی شہری کے حوالے سے میڈیا کے ساتھ گفتگو پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قدم ایک ایسے موقعہ پر سامنے آیا ہے جب ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ امریکہ کا لاہور قونصل خانہ ، تیسرے پاکستانی کو کچلنے والی گاڑی اور ڈرایئور کو تفتیشی حکام کے حوالے کرنے کے لیئے تعاون نہیں کر رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستانی حکومت اس واقعے کے بعد ایک نئی آزمائش سے دوچار ہو گئی ہے، وہ ایک طرف امریکی شہری کو رہا کرنے کے حوالے سے بیرونی دباؤ کا شکار ہے تو دوسری طرف اسے اس امریکی شہری کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے حوالے سے اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: کشور مصطفیٰ