امریکی صدارتی الیکشن، سینڈرز نے مہم معطل کر دی
9 اپریل 2020ترقی پسند اور روشن خیال سیاسی اقدار کے حامی اور امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹ رکن برنی سینڈرز اسی سال ہونے والے صدارتی الیکشن میں اپنی پارٹی کے امیدوار بننے کے خواہش مند تھے۔ تاہم بدھ کے دن 78 سالہ سیاستدان نے اعلان کیا کہ وہ اپنی مہم کو معطل کر رہے ہیں۔ سینڈرز کے مدمقابل جو بائیڈن کو حالیہ دنوں میں اچھی خاصی سبقت حاصل ہو گئی تھی۔
ویرموٹ کے سینیٹر سینڈرز نے اپنے حامیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ''میری خواہش تھی کہ میں آپ کو اچھی خبر سناتا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے؟ ہم جو بائیڈن کے مقابلے میں تین سو سے کم ڈیلیگیٹ کی حمایت رکھتے ہیں۔ یوں کامیابی ناممکن ہو چکی ہے۔‘‘
تاہم سینڈرز نے کہا کہ وہ اس مہم کی معطلی کے باوجود اپنے ڈیلیگیٹس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور باقی ماندہ طے شدہ ستائیس پرائمریز میں حصہ لیں گے۔ یوں تکنیکی لحاظ سے سینڈرز اس دوڑ سے دستبرار نہیں ہوئے ہیں۔
برنی سینڈرز کے اس اعلان کے نتیجے میں اب قوی امید ہو چلی ہے کہ رواں برس نومبر میں منعقد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل میں اب 77 سالہ ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن اتریں گے۔
جو بائیڈن سن 2009 تا 2017 سابق امریکی صدر باراک اوباما کے نائب تھے۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے بارہ سو سترہ ڈیلیگیٹ کی حمایت حاصل ہو چکی ہے جبکہ ان کے مدمقابل سینڈرز پر 917 ڈیلیگیٹس نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس مرتبہ ڈیموکریٹ پارٹی میں صدارتی امیدوار بننے کے لیے انہیں 1991 ڈیلیگیٹس کی حمایت درکار تھی، جو اب سینڈرز کی دسترس سے باہر معلوم ہوتی ہے۔
سینڈرز کی دستبرداری پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ سینیٹر سینڈرز ایک اچھے انسان ہیں اور وہ اپنی الیکشن مہم میں ان کے کچھ نظریات کو شامل کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم مل کر آگے بڑھیں گے اور امریکی تاریخ کے خطرناک ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے دیں گے۔‘‘
برنی سینڈرز نے کہا کہ صدارتی امیدواری سے دستبردار ہونے کی ایک وجہ نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا بھی ہے۔ یاد رہے کہ سینڈرز نے سن 2016 کے الیکشن میں بھی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کی تھی تب وہ سابق خاتون اول ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں بھی شکست کھا گئے تھے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے