اگلا امریکی صدر کون؟ کروز اور سینڈرز کی پوزیشن بہتر لیکن ..
6 مارچ 2016صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں ہفتے کے روز ہونے والے ابتدائی انتخابات میں دو ریاستوں کینساس اور مین میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ٹَیڈ کروز کی کامیابی سے اس جماعت کے اندر ظاہر کیے جانے والے ان خیالات کو تقویت ملی ہے کہ اس جماعت کی جانب سے یا تو 69 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ اور یا پھر 45 سالہ ٹَیڈ کروز آٹھ نومبر کو منعقدہ صدارتی انتخابات میں حتمی امیدوار کے طور پر حصہ لیں گے۔
ہفتے کے روز جن چار ریاستوں میں ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کے لیے انتخابات ہوئے، اُن میں مندوبین کی مجموعی تعداد 155 تھی۔ کروز کو ان میں سے 64 ووٹ ملے جبکہ ٹرمپ کو 49 ووٹ ملے۔ نامزدگی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 1237 ووٹ درکار ہیں۔ ہفتے کی پرائمریز سے پہلے تک ٹرمپ کو 319 جبکہ کروز کو 226 ووٹ مل چکے تھے۔
ان چاروں ریاستوں میں سے کسی میں بھی فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو کو خاطر خواہ ووٹ نہیں مل سکے۔ اسی لیے ارب پتی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ نے روبیو کو مشورہ دیا ہے کہ اب وہ صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ سے باہر ہو جائیں اور میدان میں صرف اُنہیں یعنی ٹرمپ اور کروز کو ہی رہنے دیں۔ ٹرمپ نے دو قدرے بڑی ریاستوں لوئیزیانا اور کینٹیکی میں کامیابی حاصل کی ہے۔
آئندہ منگل کو ہونے والا انتخابی معرکہ بڑا بھی ہے اور اہم بھی۔ تب صدارتی امیدوار بننے کے خواہاں صنعتی ریاست مشیگن میں مندوبین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ منگل کو ہی ری پبلکنز تین دیگر ریاستوں مسی سپی، ایڈاہو اور ہوائی میں ووٹ ڈالیں گے۔ پوئرٹو ریکو میں ری پبلکنز آئندہ اتوار کو اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ کے صدارتی امیدوار بننے کی صورت میں ری پبلکن پارٹی نومبر کے صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو کے ساتھ ملنے والی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنے پر زور دینے اور تمام مسلمانوں کے امریکا میں داخل ہونے پر عارضی پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام گیارہ ملین تارکینِ وطن کو پکڑ کر ملک بدر کر دیا جانا چاہیے۔ اپنے ایسے عوامیت پسندانہ مطالبات کی بدولت ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی میں اعتدال پسند موقف رکھنے والے سیاستدانوں کی مقبولیت کو گہنا دیا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے بیرنی سینڈرز نے، جو ویرمونٹ سے منتخب ہونے والے سینیٹر ہیں، کینساس اور نیبراسکا میں اپنی حریف سیاستدان اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو شکست دے دی۔ اس کے برعکس کلنٹن لوئیزیانا میں جیت گئیں، جسے زیادہ اہم ریاست خیال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ سینڈرز دو ریاستوں میں جیتے ہیں لیکن ماہرین کے خیال میں مجموعی طور پر اس صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ مندوبین کے زیادہ تر ووٹ کلنٹن ہی کو مل رہے ہیں۔
دونوں جماعتیں اپنے اپنے صدارتی امیدواروں کا حتمی انتخاب اس سال موسم گرما میں کریں گی۔ اس سال امریکا میں صدارتی انتخابات آٹھ نومبر کو ہوں گے۔