امریکی صدارتی انتخابات اور ایرانی رائے عامہ
31 اکتوبر 2024سن 1979 میں تہران میں امریکی سفارت خانے میں امریکی عملے کو یرغمال بنائے جانے کے واقعے کو 45 برس گزر گئے، لیکن دونوں ممالک کے مابین تناؤ اور کشیدگی اب بھی اُسی شدت کی ہے۔ اسی پس منظر میں امریکہ کے صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔
ایران کی صورتحال
ایران اب بھی مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں جکڑا ہوا ہے جو اس کے ساتھ ساتھ پورے خطے کی تباہی کا سبب ہے۔ ایران کے اتحادی عسکریت پسند گروپوں اور اس کے جنگجو، جو خود کو 'مزاحمت کے محور‘ قرار دیتے ہیں ہیں، غزہ پٹی میں اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شکست حوزردہ ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ اور حماس کے خلاف تباہ کن حملے اور لبنان پر چڑھائی اور فضائی اور زمینی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اسرائیل پر اپنے دو بیلسٹک میزائل حملوں کے جواب میں گزشتہ ہفتے اسرائیل کی طرف سے ہونے والے حملوں سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایران اور روس کی بڑھتی دفاعی شراکت داری سے امریکہ ناراض
دریں اثناء ایران کی یورینیم کی افزودگی کے پروگرام، جو جوہری ہتھیار سازی کے درجے کے قریب سمجھا جاتا ہے، کی وجہ سے تہران پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں۔ جس سے ایران کی معیشت سخت متاثر ہوئی ہے اور ایرانی کرنسی ریال ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
امریکہ کے صدارتی انتخابات پر ایرانی رائے عامہ
ایران میں 2022 ء میں کُرد نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے عوامی مقامات پر خواتین کھلے عام ملک میں پائے جانے والے ہیڈ اسکارف پہننے کے لازمی قانون کی خلاف ورزی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا سر پر اسکارف، یا حجاب کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کا نتیجہ ہے۔
اب ایک ایسے وقت میں جب امریکی باشندے اپنے نئے صدر کے انتخاب کے لیے اپنے ووٹ ڈالنے کی تیاری میں ہیں اور سابق امریکی صدر اور ریپبلکن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ نائب صدر اورڈیموکریٹک لیڈر کملا ہیرس کے بیچ اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخاب کی کشمکش میں ہیں، تہران کی سڑکوں پر ایرانی عوامی رائے منقسم نظر آ رہی ہے۔
ان کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان دونوں امریکی امیدواروں میں سے کون سا امیدوار ان کے لیے، یعنی ایران کے لیے بہتر ثابت ہو گا؟
65 سالہ صادق ربانی کے بقول، 'سن 1979 کے ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد سے منتخب ہونے والے تمام امریکی صدور ایک ہی سے تھے اور ایران کے بارے میں ان کے خیالات میں میرے خیال سے کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔‘‘
چین کی ثالثی میں سعودی ایران معاہدہ امریکہ کے لیے امتحان
کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی ایران کے بارے میں اپنے سخت گیر موقف کا اظہار کر چُکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا کیا تھا؟
2018 ء میں ٹرمپ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کی طے شدہ ڈیل سے امریکہ کو یکطرفہ طور پرباہر نکالا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ پر برسوں سے جاری حملوں کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ سب حماس کے 7 اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے سے پہلے ہی ہو چُکا تھا۔
ٹرمپ کو اس بارے میں بریف کر دیا گیا تھا کہ ان کے فیصلے پر بغداد میں 2020 ء میں ڈرون حملے میں ایران کے چوٹی کے جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر ایرانی باشندوں کی ہلاکت کے بعد ایران جوابی کارروائی کی سازش کر رہا ہے۔
مزید پابندیوں سے امریکہ ایران تعلقات بگڑ سکتے ہیں: احمدی نژاد
کملا ہیرس کے اسرائیل کی حمایت میں بیانات
ستمبر کے صدارتی مباحثے میں کملا ہیرس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ہمیشہ اسرائیل کو اپنے دفاع کی صلاحیت فراہم کریں گی۔ خاص طور سے ایران کے حوالے سے اور ایران یا اُس کی پراکسیز سے اسرائیل کو لاحق کسی بھی خطرے سے بچنے کے لیے اسرائیل کا ہر طرح سے ساتھ دیں گی۔
ایرانی نوجوانوں کا کملا ہیرس کی طرف جھکاؤ
تہران کے مرکز میں ایک آؤٹ ڈور کافی شاپ میں، جو نوجوانوں میں مقبول ہے، 22 سالہ زہرہ رضائی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ کملا ہیرس کی جیت کو ترجیح دیں گی۔ ان کا کہنا تھا،'' ہم نے ماضی میں ٹرمپ کو دیکھا تھا اور وہ صرف ایران مخالف پالیسی چلاتے تھے۔‘‘
زہرہ رضائی کا مزید کہنا تھا،''اب یہ ایک عورت کا وقت ہے ... میرے خیال میں وہ (ہیرس) بہتر ہوں گی کیونکہ وہ جنگ نہیں چاہتیں۔‘‘
زہرہ رضائی سے اتفاق کرتے ہوئے شعبہ سیاسیات کے 28 سالہ پوسٹ گریجویٹ طالبعلم ابراہیم شیری کا کہنا تھا،''میرے خیال میں ہیرث دنیا کو بہتر جانتی ہیں۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا، '' ہیرس اور جوبائیڈن نے اسرائیل کو قائل کیا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرے۔ اس اقدام کا مطلب امن کی طرف بڑھنا تھا۔‘‘
ایک ایرانی خاتون، جنہوں کھلے عام بات کرنے کے نتائج کے خوف سے صرف اپنا نام مہناز بتایا، کا ماننا ہے کہ کملا ہیرس ایک عورت ہونے کے ناطے ایران کے ساتھ کسی بھی ڈیل تک نہیں پہنچ سکتیں، کیونکہ 'مرد مردوں سے بات کر سکتے ہیں‘۔
تہران میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے 30 برس مکمل
ایک اور خاتون فریبہ اوودی نے کہا، ''میرے خیال میں اگر ٹرمپ منتخب ہو گئے تو یہ ہمارے بچوں کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ یقیناً اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون منتخب ہوتا ہے، یہ پہلے سے ہی مشکل ہے۔ ہم ایرانی عوام سیاسی کھیل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے بچے اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں لیکن میں اب بھی سوچتی ہوں کہ اگر ٹرمپ صدر بنے تو یہ زیادہ مشکل ہو گا، خاص طور پر میرے بیٹے کے لیے جو ایک طالب علم ہے اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
ایرانی صدر پیزشکیان کی انتظامیہ کی ایک ترجمان فاطمہ مہجرانی نے کہا ہے کہ تہران امریکی پالیسیوں میں تبدیلی اور دوسرے ممالک کی قومی خودمختاری کا احترام چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا،'' ایران چاہتا ہے کہ واشنگٹن تناؤ پیدا کرنے والی سرگرمیوں سے گریز کرے جیسا کہ ہم نے حالیہ برسوں میں دیکھا۔‘‘
تجزیہ کار تاہم کہہ رہے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگلے منگل کو امریکہ میں کون صدر منتخب ہوتا ہے، امریکہ ایران مذاکرات کے امکانات مشکل نظر آتے ہیں۔
ک م/ ش ح(اے پی)