1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکی کوسٹ گارڈ تمام انسانوں کو ہلاک کرنا چاہتا تھا‘

عاطف بلوچ رچرڈ کونر
21 فروری 2019

امریکی پولیس نے کہا ہے کہ کرسٹوفر پال ہیسن مشتبہ طور پر بڑے پیمانے پر تباہی کرنا چاہتا تھا جبکہ اس نے نمایاں سیاسی شخصیات کی ایک لسٹ بھی بنا رکھی تھی۔ اسے جمعرات کو عدالت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3DmKJ
US-Bundespolizei durchkreuzt Anschlagspläne
تصویر: picture-alliance/dpa/AP//U.S. District Court for Maryland

امریکی حکام نے کرسٹوفر پال ہیسن پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی خواہش تھی کہ وہ دنیا میں موجود آخری شخص کو بھی ہلاک کر دے۔ کوسٹ گارڈ لیفٹیننٹ ہیسن کو اسلحے اور منشیات رکھنے کے الزام میں جمعرات کے دن میری لینڈ کی ایک عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ اس کے گھر کے تہہ خانے سے پندرہ آتشیں ہتھیار اور متعدد رائفلز برآمد ہوئیں ہیں۔

سلور سپرنگ کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ میری لینڈ میں واقع ہیسن کے گھر سے اسلحے کے علاوہ ممنوعہ منشیات بھی ملی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہیسن نے مائیکرو سوفٹ ایکسل میں ایسی نمایاں سیاسی شخصیات کی ایک لسٹ بنا رکھی تھی، جنہیں وہ مبینہ طور پر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ اس فہرست میں ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی سمیت متعدد نمایاں ڈیموکریٹ سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہیسن گزشتہ کئی برسوں سے انتہا پسندی کی طرف مائل ہو چکا تھا جبکہ اس نے انٹر نیٹ پر ہتھیاروں کی متعدد ویب سائٹس کا مطالعہ کیا اور ساتھ ہی جنگی حربوں سے متعلق مواد تک رسائی بھی حاصل کی۔ جون سن دو ہزار سترہ  میں اس نے ایک ای میل ڈرافٹ کی تھی، جس میں کیماوی حملے کرنے کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی۔

عدالت کے سامنے پیش کی گئی اس ای میل کے مطابق ہسین خوراک میں بائیولوجیکل حملوں کو ایک دلچسپ خیال تصور کرتا تھا۔ واشنگٹن ہیڈ کوارٹرز میں کوسٹ گارڈ کے طور پر خدمات سر انجام دینے والے ہیسن کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نے فروری سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکا میں سب سے زیادہ لبرل سیاستدانوں کے بارے میں معلومات جمع کی تھیں اور یہ پرکھنے کی کوشش کی تھی آیا سپریم کورٹ نے انہیں کوئی خفیہ سکیورٹی فراہم کر رکھی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہیسن ناورے کے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حملہ آور آندریاس بریوک کے منشور کو باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ نسل پرست بریوک نے اپنے اس منشور میں تشدد کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہی ایک طریقہ ہے، جس سے سفید فام نسل کی برتری کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ بریوک نے جولائی سن دو ہزار ایک میں اوسلو میں کارروائیاں کرتے ہوئے 77 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں