امید اور نا امیدی کے درمیان جھولتے کوریائی تعلقات
13 فروری 2018اب سے چند ماہ قبل شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل تجربوں اور واشنگٹن کے ساتھ دھمکیوں کے تبادلے نے جزیرہ نما کوریا کے دونوں ممالک کے درمیان موجود تناو کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔ لیکن جنوبی کوریا میں گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والے سرمائی اولمپکس کے موقع پر دونوں کوریائی ممالک کے درمیان کشیدگی کی شدت میں قدرے کمی دیکھی گئی ہے اور ان کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیکڑوں شمالی کوریائی باشندوں نے سرحد پار کر کے جنوبی کوریا کا سفر کیا۔ ايسے میں ان لمحات کو نہایت اہمیت دی گئی، جب جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن کی بہن کم یو جونگ سے ملے اور اسی ملاقات ميں کم يو نے انہیں اپنے بھائی کی جانب سے پیونگ یانگ کے دورے کی دعوت بھی دی۔
گو کہ ان تمام سرگرمیوں نے بظاہر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی فضا کم ہونے کا اشارہ دیا لیکن عملی طور پر اس اولمپک ڈپلومیسی کے اثرات دونوں کوریائی ریاستوں کے درمیان غیر فوجی علاقے کی صورتحال پر اثر انداز ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ یہ علاقہ 1950 سے 1953 تک دونوں ممالک کے درمیان جاری رہنے والی جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ یہ جنگ تکنیکی طور پر ختم نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس میں حملوں کا سلسلہ تو روک دیا گیا تھا مگر کوئی جنگی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔
یہاں سے کچھ دور موجود علاقے کے ایک دکاندار کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئےکہنا تھا کہ ظاہری طور پر شمالی کوریا دوستی کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن اندرونی طور پر وہ کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘‘ اسی طرح ایک اور دکاندار کا کہنا تھا، ’’جب تک شمالی کوریا کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ‘‘
شمالی و جنوبی کوریا کے مابین تناؤ میں کمی کا امکان
ونٹر اولمپک مقابلے، ’برف نہیں پگھلے گی‘
لیکن چند ایسے افراد بھی ہیں جو دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہونے کی امید کرتے ہیں۔ ان ہی میں کم ڈیوک جا بھی ہیں جو سرحد کے قریب ایک گاؤں میں نصف صدی سے رہائش پذیر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں کوریائی ممالک متحد ہو جائیں۔ کم ڈیوک اس امید میں اکیلے نہیں۔ گزشتہ برس ہونے والے رائے شماری کے ايک جائزے کے مطابق 60 سال سے زائد عمر کے 50 فیصد کوریائی عوام دونوں جزیرہ نما کوريا کے متحد ہونے کے خواہشمند ہیں۔ کم کہتے ہیں کہ سرمائی اولمپکس میں دونوں ممالک کے درمیان گرم جوشی شاید حالات میں تبدیلی کی نوید سنا رہی ہے۔