انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے زور پکڑتے مطالبات
18 فروری 2024کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کی جانب سےآٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کروانے کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان پر لگائے گئےالزامات کی تحقیقات کے لیے مطالبات زور پکڑتے جار رہے ہیں۔
اس اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے ہفتے کے روز راولپنڈی ڈویژن میں انتخابی دھاندلی کی زمہ داری قبول کرتےہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے اور خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پی ٹی آئی کا عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کشمنر کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی انتخابات میں کامیابی کےنوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں کیے گئے۔ پی ٹی آئی کے رہنما بیر سٹر گوہر نے اتوار کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت، جس دھاندلی کا ذکر کر رہی ہے، اُس کی تائید کل راولپنڈی کے کمشنر نے بھی یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ ان کے کہنے پر آر اوز اور ڈی آر اوز نے دھاندلی کی اور ہارے ہوئے اُمیدواروں کو کامیاب کروایا۔
پی ٹی آئی کے رہنما نے مطالبہ کیا کہ اس سارے معاملے کی چھان بین کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’جو لوگ دھاندلی کے اس عمل میں شریک ہیں انہیں شاملِ تفتیش کیا جائے۔‘‘ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے جو حقائق بھی آئیں اُنھیں عوام کے سامنے لایا جائے۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ فارم 45 کے تحت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کے نوٹیفکیشن جاری کیے جائیں۔
الیکشن کمیشن نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی
الیکشن کمشین آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کمشنر راولپنڈی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ترجمان نگہت صدیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' الزامات کا نوٹس لیا گیا ہے اور اس پر کمیٹی بنا دی گئی ہے، جو مقررہ وقت میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔‘‘
خیال رہے کہ کمشنر راولپنڈی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو دھاندلی کا زمہ دار قرار دیا تھا۔ اس پر الیکشن کمیشن نے فوری طور پر ایک پریس ریلیز جاری کرے کے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے سپریم کورٹ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ ''الزام لگانا ہر کسی کا حق ہے لیکن اس کے لیے ثبوت بھی دیں۔‘‘
تحقیقاتی کمیٹی پرعدم اعتماد
تاہم سیاسی جماعتیں اس کمیٹی اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی کنول شوزب کا کہنا ہے کہ انہیں اس کمیٹی پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کمشنر راولپنڈی نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سنگین الزامات لگائے ہیں اور یہ کمیٹی انہی کو رپورٹ کرے گی۔‘‘ کنول شوزب کے مطابق اس معاملے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ''تحقیقات میں چیف جسٹس کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے بلکہ دوسرے ججوں کو اس میں رکھا جانا چاہیے۔‘‘
جمعیت علماء اسلام (ف) کا بھی کہنا ہے کہ وہ اس کمیٹی سے مطمئن نہیں ہے۔ جمعیت کی مرکزی شوری کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم کمشنر راولپنڈی کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن ان کی طرف سے چیف جسٹس پہ لگائے جانے والے الزامات کی ہم تائید نہیں کرتے۔‘‘
الزامات درالزامات
اس کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ بھی سیاسی جماعتوں میں الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے الزامات در الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات کے بعد الزام لگایا تھا کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے اور 90 سے زیادہ نشستیں ایسی ہیں جن پر ان کے خیال میں دھاندلی ہوئی ہے۔
تاہم ن لیگ کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا کہنا ہے کہ دھاندلی پی ٹی آئی کے لیے کی گئی ہے۔
نہال ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اسٹیبلشمنٹ میں اب بھی جنرل فیض کی باقیات ہیں، جنہوں نے انتخابات سے صرف کچھ ہفتے پہلے ہی عمران خان کو سزائیں دلواکر ہمدردی کی ایک لہر چلوائی، جسے پری پول رگنگ کہا جا سکتا ہے۔‘‘
نہال ہاشمی کے مطابق انتخابات کے فوراﹰ بعد صرف پانچ فیصد نتائج کے اعلان پر ہی میڈیا کے ایک مخصوص گروپ نے پی ٹی آئی کی کامیابی کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا۔ ''میڈیا میں اینکروں کا یہ مخصوص گروپ جنرل فیض کی باقیات سے رابطے میں ہیں۔ ماحول بنا کے یہ تاثر دیا گیا کہ عمران خان جیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پری پول رگنگ کے نتیجے میں عمران خان کو سیاسی فائدہ ہوا ۔‘‘
محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ جمیعت علماء اسلام کو سندھ میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر برتری حاصل تھی۔ تاہم اس برتری کو بعد میں حریف امیدواروں کے حق میں تبدیل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا،'' وہاں پر بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔‘‘
نیشنل پارٹی کی رہنما یاسمین لہڑی نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں نشستوں کے حصول کے لیے بولیاں لگائی گئیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کی تاریخ میں یہ بدترین دھاندلی تھی، جس میں پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ کس کو جتوانا ہے اور اس کے لیے پانچ کروڑ سے لے کر پچیس کروڑ تک کی بولیاں لگائی گئیں۔‘‘
پی ٹی آئی کی کنول شوزب کا کہنا ہے کہ ان کے امیدواروں کو اغوا کیا جا رہا ہے اور ان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ نون لیگ میں شمولیت اختیار کریں۔ '' ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارا چوری شدہ مینڈیٹ ہمیں واپس کیا جائے۔ ''اور فارم 45 کے مطابق نتائج کو ترتیب دیا جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ہم پانچ سال تک الیکشن ٹریبونل کے چکر کاٹتے رہیں اور پی ڈی ایم اس دوران حکومت بنائے اور عوام کا مینڈیٹ چوری کر کے ملک پر حکمرانی کرے۔‘‘