انتہائی دائیں بازو کی یورپی سیاسی جماعتوں کا پراگ میں اجلاس
16 دسمبر 2017فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہفتے کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ’یورپ کے لیے اقوام اور آزادیوں کی تحریک‘ نامی پلیٹ فارم یا MENL کے اس اجلاس میں مختلف یورپی ممالک کی انتہائی دائیں بازو کی جو پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں، ان میں فرانس کی نیشنل فرنٹ، آسٹریا کی فریڈم پارٹی، اٹلی کی علاقائی جماعت شمالی لیگ، اور ہالینڈ کی پارٹی آف فریڈم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
مہاجرین مخالف جماعت نے قوم پرست رہنما کو شریک سربراہ چن لیا
اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت AFD کا نیا صدرکون بنےگا؟
ان جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کے جو سرکردہ یورپی سیاستدان پراگ میں آج کے اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں، ان میں فرانسیسی نیشنل فرنٹ کی خاتون سربراہ مارین لے پین، آسٹرین فریڈم پارٹی کے لیڈر ہائنز کرسٹیان شٹراخے، اطالوی نارتھ لیگ کے چند مرکزی رہنما اور ہالینڈ کی پارٹی آف فریڈم کے بانی اور اسلام اور مہاجرین مخالف متنازعہ رہنما گیئرٹ وِلڈرز بھی شامل ہیں۔
ان سیاسی رہنماؤں کو پراگ آنے کی دعوت یورپ میں انتہائی دائیں باز وکے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والی نئی لیکن کافی طاقت ور شخصیت تَومِیو اوکامُورا نے دی تھی۔ اوکامُورا نے اپنی سیاسی جماعت ’فریڈم اینڈ ڈائریکٹ ڈیموکریسی پارٹی‘ (SPD) کی بنیاد 2015ء میں رکھی تھی۔
یہ پارٹی چیک جمہوریہ میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی سخت مخالف ہے اور اس نے انتہائی دائیں باز وکے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے لے جاتے ہوئے اسی سال اکتوبر میں ہونے والے چیک پارلیمانی الیکشن میں 10.6 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
ہنگری ميں مسلمانوں کے خدشات جاننے کے ليے معلوماتی واک
شامی مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ سنگ دلی ہے، گرین پارٹی
یورپ کا ’ٹرمپ‘ چیک جمہوریہ کا ممکنہ وزیراعظم
آج ہفتے کے روز پراگ میں ہونے والے اس اجلاس سے قبل امریکا کی جارجیا یونیورسٹی کے سیاسی امو رکے ماہر کاس مُوڈے نے ڈی پی اے کو بتایا کہ انتہائی دائیں بازو کے یورپی سیاسی گروپوں کی تحریک ’ایم ای این ایل ایک ایسی تنظیم ہے، جو بہت منظم نہیں ہے اور جس کا بنیادی مقصد عوام کی سیاسی نمائندگی کے نام پر یورپی یونین سے فنڈز کا حصول ہے‘۔
دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سیاست پر قریب سے نظر رکھنے والے کاس مُوڈے نے ڈی پی اے کو بتایا کہ 2015ء میں قیام کے بعد سے اس یورپی تحریک کے سیاسی حجم میں ہونے والا اضافہ نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔
مُوڈے نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’اس تحریک میں ابھی تک یورپ اور یورپی پارلیمان میں موجود انتہائی دائیں بازو کی بہت سخت گیر سوچ رکھنے والی وہ سیاسی جماعتیں یا گروپ شامل ہیں، جو دیگر امور کے علاوہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے سے فائدہ تو اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن ابھی تک ایسا کر نہیں سکے۔‘‘
مہاجرین مخالف مظاہروں میں شریک پادریوں کو معطل کر دیں گے، پولستانی چرچ
’مہاجرین پر پیسہ لگائیں یا اپنے بچوں پر‘
’مہاجرت مخالف ہی مہاجرین کی اسمگلنگ میں ملوث‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں یہ تحریک اس وجہ سے مزید کمزور ہو جائے گی کہ بریگزٹ کے ساتھ ہی یورپی پارلیمان سے برطانیہ کے بہت سخت سوچ رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان بھی رخصت ہو جائیں گے۔
ان حالات میں پراگ میں ہونے والے اجلاس کے ذریعے یہ تنظیم اپنے لیے کچھ نئی توانائی کی خواہش مند نظر آتی ہے، اور اسی لیے اب اس تحریک میں چیک جمہوریہ کے سیاستدان اوکامُورا کی پارٹی کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔