انٹرنیٹ پر نفرت پھیلانے والوں کی بھرمار
18 جنوری 2011عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جیسے جیسے فیس بُک اور ٹوئٹر جیسی ویب سائٹس وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر کونے سے کروڑوں شہریوں کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں ویسے ہی لوگوں کی زندگیوں پر ان کے اثرات بھی گہرے ہوتے جارہے ہیں۔
تھائی لینڈ میں ایک نوجوان لڑکی کو ہر روز ملنے والی موت کی دھمکیوں نے ایک بار پھر اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔
یہ 16 سالہ لڑکی گزشتہ ماہ دارالحکومت بینکاک میں گاڑی چلا رہی تھی کہ اس کی گاڑی قابو سے باہر ہوکر ایک مسافر بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں نو انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جبکہ وہ خود بمشکل زندہ بچنے میں کامیاب رہیں۔ اس کے بعد فیس بک پر اس لڑکی کو بھی موت کی سزا دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ لگ بھگ تین لاکھ افراد کا یہی مطالبہ ہےجو حیران کن ہے۔
مبینہ طور پر نفرت کے پیامبر ان افراد کی جانب سے اس لڑکی کو ملنے والے پیغامات میں لکھا جارہا ہے کہ، ’’ تمہارے لیے اب کبھی بھی کوئی خوشی نہیں۔‘‘، ’’ صرف تمہاری موت سے اس کا ازالہ کیا جاسکتا ہے جو تم نے کیا۔‘‘
ان پر تشدد رویوں کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ماہر نفسیات Adrian Skinner کہتے ہیں کہ بعض انٹرنیٹ صارفین کے برتاؤ میں ایک خاص پہلو نمایاں ہوتا جارہا ہے جو یوں محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب ’واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ جدید الیکٹرانک دور میں ایسے لوگوں کو اپنے اپنے منافرت پھیلانے والے گروپ تشکیل دینا آسان ہو گیا ہے۔ Adrian Skinner کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ سے قبل کے زمانے میں اس قسم کے ٹولے بناکر سڑکوں پر نکل آنا بہت مشکل تھا مگر اب اس کے لئے محض کسی سماجی ویب سائٹ پرچار الفاظ لکھنے کی دیر ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح تھائی لینڈ میں بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رواج نہایت عام ہے۔ اس مشرقی ایشیائی ریاست میں محض فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد ستر لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جو پوری آبادی کا 11 فیصد بنتی ہے۔
انٹرنیٹ پر مہم جوئی کرنے والے ایک تھائی گروپ کی روح رواں سپرینیا کلانگنا رونگ Supinya Klangnarong کہتی ہیں کہ اگرچہ انٹرنیٹ نے لوگوں کو اپنے خیالات کی آزادی کے زیادہ مواقع فراہم کئے تاہم اس کا استعمال کرنے والوں کو بھی اپنی حدود کا علم ہونا چاہیے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عابد حسین