انٹرپول کی کارروائی، اسمگلروں کی قید سے 500 افراد رہا
24 نومبر 2017جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق انٹرنیشنل پولیس آرگنائزیشن نے، جسے انٹرپول کے نام سے جانا جاتا ہے، انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف یہ کارروائیاں چاڈ، مالی، موریطانیہ، نائجر اور سینیگال میں کیں۔
نوجوان مہاجر لڑکیوں کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی؟
’مہاجرین چلا چلا کر کہتے رہے کہ آکسیجن ختم ہو رہی ہے‘
انٹرپول کی جانب سے جمعرات چوبیس نومبر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ انسانوں کے مشتبہ اسمگلروں کے خلاف کی گئی ان کارروائیوں کے دوران رہا کیے گئے افراد میں دو سو چھتیس بچے بھی شامل تھے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن چالیس مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اب ان کے خلاف انسانوں کی اسمگلنگ، جبری مشقت اور بچوں کے استحصال کے مقدمات چلائے جائیں گے۔
بین الاقوامی پولیس کی جانب سے کی گئی یہ کارروائیاں افریقہ کے ساحل ریجن میں سرگرم انسانوں کے اسمگلروں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف شروع کیے گئے ایک منصوبے کے تحت کی گئی ہیں۔ یہ منصوبہ جرمنی کے وفاقی دفتر خارجہ کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔
انٹرپول نے ان اسمگلروں کی قید سے رہا ہونے والے افراد کی قومیت اور شناخت کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔ تاہم ایک مثال کے طور پر ایک سولہ سالہ لڑکی کے بارے میں بتایا گیا ہے جسے مالی میں ملازمت فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد نے اس کے سفر پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نوجوان لڑکی کو جبری طور پر جسم فروشی پر مجبور کیا۔
اس بین الاقوامی ادارے کے مطابق متعدد افریقی ممالک میں مارے گئے ان چھاپوں کے دوران اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سمیت متعدد سماجی تنظیموں نے بھی معاونت کی تھی۔ نجی سماجی تنظیمیں انسانوں کے اسمگلروں کی قید سے رہا کرائے گئے افراد کی معاونت بھی کر رہی ہیں۔
پاکستان: انسانوں کی اسمگلنگ سالانہ قریب ایک ارب ڈالر کا کاروبار