1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کا دورہ: ’بھارت کو شہ ملے گی‘، پاکستانی تجزیہ کار

شکور رحیم، اسلام آباد26 جنوری 2015

پاکستان نے سرکاری طور پر امریکی صدر باراک اوباما کے دورہٴ بھارت کو جنوبی ایشیا کے خطے میں استحکام کی سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس دورے سے بھارت کو شہ مل سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EQYg
امریکی صدر باراک اوباما اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی چھبیس جنوری کو نئی دہلی میں یومِ جمہوریہ کی تقریب میں
امریکی صدر باراک اوباما اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی چھبیس جنوری کو نئی دہلی میں یومِ جمہوریہ کی تقریب میںتصویر: Reuters/India's Presidential Palace

امریکی صدر باراک اوباما کے دورہٴ بھارت پر تبصرہ کرتے ہوئے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ دورہ خطے میں کشیدگی کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ’جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لیے اوباما صاحب اپنا کردار اداکریں گے‘۔

اسلام آباد میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خطے میں امن پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے کیونکہ اس سے دونوں ممالک کی اقتصادی صورتحال بہتر ہو گی۔

بارہ جنوری کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان میں تھے، جہاں سرکاری بیانات کے بقول اُنہیں ہندوستان کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کر دیا گیا تھا
بارہ جنوری کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان میں تھے، جہاں سرکاری بیانات کے بقول اُنہیں ہندوستان کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کر دیا گیا تھاتصویر: Reuters/R. Wilking

ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورہٴ پاکستان کے موقع پر انہیں ہندوستان سے متعلق اسلام آباد کے تحفظات سے آگا ہ کر دیا گیا تھا:’’سیکرٹری کیری یہاں آئے تھے تو ہم نے انہیں اپنے جو خدشات تھے ہندوستان کی جارحیت سے متعلق، وہ پہنچا دیے تھے۔‘‘

تاہم دفاعی امور کے تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان سول جوہری معاہدےپر ہونے والی پیش رفت یقیناً پاکستان کے لیے تشویش کی بات ہے۔اس پیشرفت کے تحت اب امریکی کمپنیاں بھارت کو غیر فوجی جوہری ٹیکنالوجی فراہم کر سکیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ اور بھارت کے درمیان ایک مضبوط پارٹنر شپ سامنے آئی ہے تواس کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت خصوصاً مودی حکومت نے جو جارحانہ رویہ پاکستان کے بارے اپنا رکھا ہے، اس میں اضافہ ہو کیونکہ بھارت کو اوبامہ کے دورے سے ایک شہ ملے گی‘۔

طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھی اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اپنے اقدامات کیے ہیں اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہٴ چین اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

’اوباما صاحب بھارت کو کہیں کہ وہ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت کیوں نہیں دیتی‘
’اوباما صاحب بھارت کو کہیں کہ وہ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت کیوں نہیں دیتی‘تصویر: Rouf Bhat/AFP/Getty Images

ادھر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند دھڑے حریت کانفرنس کے رہنما آغا حسن بڈگامی نے امید ظاہر کی کہ امریکی صدر باراک اوباما مسئلہٴ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ پیر کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اوباما صاحب بھارت کو کہیں کہ وہ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت کیوں نہیں دیتی‘۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کی تھی تاہم شمشاد احمد خان کے بقول 2008ء میں ممبئی پر حملوں کے بعد سے اوباما کی ڈکشنری سے کشمیر کا لفظ نکل گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شمشادا حمد خان نے کہا کہ ’صدر اوباما کے دورے میں نئی بات کیا ہے، بھارت اور امریکا کا رومانس تو کافی سالوں سے جاری ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2006ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیوبش نے بھارت کا پانچ روزہ دورہ کیا اور پاکستان وہ پانچ گھنٹوں کے لیے رکے تھے اور بھارت کے ساتھ امریکا کا فوجی تعاون 2005ء میں جبکہ نیوکلئیر معاہدہ 2008ء میں ہوا تھا۔

شمشاد احمد خان کے مطابق امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی قربت اصل میں امریکہ کی جانب سے اس خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں