اورکزئی اور خیبر : فوجی کارروائیوں میں شدت
12 اپریل 2010فوج نے ان کارروائیوں میں طالبان کے کئی سرکردہ کمانڈروں سمیت 250 مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کردینے کے ساتھ ساتھ علاقے پر کنٹرول سنبھالنے کے دعوے بھی کئے ہیں۔ فریقین کے مابین جھڑپوں میں ایک لیفٹننٹ کرنل سمیت 8 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔
فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ترجمان میجر فضل الرحمان کے بقول 12 عسکریت پسندوں کو اتوار کے روز اورکزئی کے کانگرہ اور سام نامی علاقوں میں جھڑپوں کے دوران مارا گیا جبکہ چھ شدت پسند زخمی ہوئے۔ ان کے مطابق 11مزید عسکریت پسند شیرن درہ نامی علاقے میں ہلاک ہوئے۔ میجر فضل کے بقول یہ عسکریت پسند اہم سٹریٹیجک نوعیت کی حامل چیک پوسٹ پر قبضہ کرنے کے لئے حملہ آور ہوئے تھے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق سینکڑوں طالبان عسکریت پسند اور القاعدہ کے جنگجو پہلے ہی جنوبی وزیرستان سے فرار ہونے کے بعد مجبوراً اورکزئی ایجنسی آئے تھے اور وہاں سے خیبر ایجنسی کی جانب بڑھ رہے تھے۔
اورکزئی ایجنسی میں گزشتہ ماہ سے جاری فوجی کارروائیوں میں شدت آنے کے بعد فوجی دعووٴں کے مطابق اب تک 350 سے زائد مبینہ عسکریت پسند مارے جاچکے ہیں۔ ایسے دعوے بھی کئے جارہے ہیں کہ بیشتر طالبان پشاور سے ملحق خیبر ایجنسی کی دور افتادہ وادی ء تیرہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔
وادی ء تیرہ میں ہفتہ کو فوج کے جیٹ طیاروں کی بمباری میں مبینہ طور پر 70 کے لگ بھگ عام شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ مقامی ذرائع کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ خیبر کے کوکی خیل قبیلہ کا ایک جرگہ جاری تھا کہ اس دوران جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی۔ جرگے کے شرکاء جب تباہ شدہ مکانات سے ملبہ ہٹانے اور نعشیں نکالنے پہنچے، تو اسی مقام کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا گیا۔
جرمن خبر رساں ادارے نے مقامی عہدے داروں کے حوالے سے کہا ہے کہ مارے جانے والے عسکریت پسند نہیں تھے۔ خیال رہے کہ اس واقعے کے بعد فوجی بیان میں 13 مبینہ شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ تو کیا گیا، مگر شہری ہلاکتوں کی نا تو تصدیق کی گئی اور نا ہی تردید۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق جیٹ طیاروں کی بمباری کا نشانہ بننے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جنہیں پشاور کے ہسپتالوں میں علاج و معالجے کے لئے لایا گیا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: گوہر نذیر گیلانی