1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوزل کی جرمن فٹ بال ٹیم سے علیحدگی، ملا جلا رد عمل

23 جولائی 2018

میسوت اوزل کی جانب سے جرمن قومی فٹ بال سے علیحدگی کے اعلان کو کچھ سیاستدانوں نے ملک میں نسل پرستی کے حوالے سے ’خطرے کی گھنٹی‘ قرار دیا ہے۔ تاہم کچھ نے کہا ہے کہ اوزل نے فیصلہ کرنے میں دیر کی ہے۔

https://p.dw.com/p/31xH6
Mesut Özil in Sotschi 2018
تصویر: picture-alliance/augenklick/firo Sportphoto

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ایک ترجمان اُلریکے ڈیمر نے آج پیر کے روز کہا کہ چانسلر اوزل کی قدر کرتی ہیں، ’’وہ ایک ایسے فٹ بالر ہیں، جنہوں نے قومی ٹیم میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘ اس بیان کے مطابق اوزل کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔

صوبہ باویریا کی فٹ بال فیڈریشن کے صدر اولی ہونیس نے اوزل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے خوشی ہے کہ یہ معاملہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اوزل سالوں سے برے کھیل کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔‘‘ ہونیس نے مزید کہا کہ جہاں تک کھیل کا تعلق ہے، اوزل کی جگہ قومی ٹیم میں بنتی ہی نہیں تھی۔

اس موقع پر اولی ہونیس صرف اوزل پر ہی نہیں برسے بلکہ انہوں نے کوچ یوآخم لوو کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ’’لوو نے اوزل کو ٹیم میں شامل کر کے خوفناک غلطی کی تھی۔‘‘

برلن حکومت کی سابق کمشنر برائے انضمام ماریا بوہمر نے کہا کہ جرمن فٹ بال فیڈریشن (ڈی ایف بی) نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ’’ اوزل اور جیروم بوئٹنگ نے ایک پل کا کردار ادا کیا ہے اور یہ دونوں تارکین وطن کے لیے مشعل راہ یا رول ماڈل ہیں۔‘‘

جرمنی کے لیے بانوے میچوں میں پچیس گول کرنے والے مڈ فیلڈر اوزل نے گزشتہ روز کہا تھا، ’’لگتا ہے کہ میری ضرورت نہیں رہی۔ سن دو ہزار نو میں جرمنی کی قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے جو کامیابیاں میں نے حاصل کی ہیں، مجھے احساس ہوتا ہے کہ انہیں بھلا دیا گیا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ سن دو ہزار چودہ میں عالمی کپ جیتنے والی جرمن ٹیم میں اوزل کا کردار نمایاں تھا اور تب سب ناقدین نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔

Berlin Mesut Özil Kabine Merkel
تصویر: picture-alliance/dpa/Bundesregierung/G. Bergmann

اوزل نے لکھا، ’’جو میں برداشت نہیں کر سکتا، وہ یہ بات ہے کہ تمام ٹیم کی بری کارکردگی کا ذمہ دار مجھے قرار دیا جائے۔‘‘ میڈیا اور کئی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کے جواب میں اوزل کا مزید کہنا تھا، ’’وہ میری کارکردگی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ وہ صرف میرے تُرک پس منظر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘

 اوزل کے بقول، ’’میں نے بہت سوچ بچار اور مشکل سے بین الاقوامی سطح پر جرمن ٹیم کی نمائندگی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اوزل کے بقول جب تک وہ نسل پرستی اور بے قدری محسوس کرتے رہیں گے، وہ جرمنی کی جانب سے نہیں کھلیں گے۔

اوزل نے جرمن فٹ بال فیڈریشن ( ڈی ایف بی) کے سربراہ رائن ہارڈ گرنڈل پر تضحیک آمیز برتاؤ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ جرمن فٹ بال فیڈریشن نے اوزل کے نسل پرستی کے حوالے سے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید