1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايک بچہ فی گھرانے کی چينی پاليسی اور سماجی مسائل

25 اکتوبر 2011

اگر سب سے زيادہ آبادی والا ملک چين خاندانی منصوبہ بندی کے سخت اقدامات نہ کرتا تو آج عالمی آبادی يقيناً کئی سو ملين زيادہ ہوتی۔ ليکن چين کی فی گھرانہ ايک بچے کی سرکاری پاليسی نے بہت سے سماجی مسائل بھی پيدا کيے ہيں۔

https://p.dw.com/p/12yl2
تصویر: dpa

اقوام متحدہ کے ايک اندازے کے مطابق اس ماہ کے آخر تک عالمی آبادی سات ارب تک پہنچ جائے گی۔

سن 1970 کے عشرے کے آخر ميں چين کے 10 سالہ ’ثقافتی انقلاب‘ کے بعد چينی معيشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ غربت کا راج تھا، رہائشی مکانات کی قلت اور افرادی قوت کی زيادتی تھی۔ چينی حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر آبادی اتنی ہی تيز رفتاری سے بڑھتی رہی تو عوام کی غذائی ضروريات پوری نہيں ہو سکيں گی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے ليے حکومت نے سن 1979 ميں پيدائش پر رياستی کنٹرول کا ضابطہ جاری کيا۔ بيجنگ کی رينمن يونيورسٹی کے سماجی علوم کے پروفيسرجو سياؤ جينگ نے کہا: ’’ماؤزے تنگ کا اس پر پورا يقين تھا کہ آبادی جتنی زيادہ ہو گی اتنا ہی ملک طاقتور ہو گا۔ ليکن ثقافتی انقلاب کے خاتمے اور ماؤ کی وفات کے بعد چين نے اس کے بالکل مخالف پاليسی اپنا لی۔‘‘

چين کی فی گھرانہ ايک بچے کی پاليسی پر واشنگٹن ميں ايک پريس کانفرنس
چين کی فی گھرانہ ايک بچے کی پاليسی پر واشنگٹن ميں ايک پريس کانفرنستصویر: Zhu Youran

اب نئے جاری کردہ ضابطے کے تحت شہروں ميں رہنے والا ہر گھرانہ صرف ايک بچہ پيدا کر سکتا تھا۔ چين کے بڑے شہروں ميں فی گھرانہ صرف ايک بچے کی پيدائش کے ضابطے کی آج بھی بڑی حد تک پابندی کی جا رہی ہے۔ پہلے بچے کے معذور ہونے يا مر جانے کی صورت ہی ميں دوسرے بچے کو جنم دينے کی اجازت ہے۔ ديہی علاقوں ميں بھی صرف وہی گھرانے دو بچے پيدا کر سکتے ہيں، جن کی پہلی اولاد لڑکی ہو کيونکہ ديہی آبادی روايتی طور پر خاندان کے سربراہ کی حيثيت سے مرد کو ترجيح ديتی ہے۔ چين کی اقليتوں پر بچوں کی پيدائش کے سلسلے ميں کسی قسم کی پابندی نہيں ہے۔

چينی حکام فی گھرانہ ايک بچے کی پاليسی پر عمل کرانے کے سلسلے ميں جبری اسقاط حمل کا طريقہ بھی اختيار کرتے ہيں۔ اخبار ’ چائنا ڈيلی ‘ کے مطابق جبری اسقاط حمل کے واقعات کی تعداد کئی ملين تک پہنچتی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظيم ویمينز رائٹس ودآؤٹ بارڈرز کی بانی ريگی لٹل جون نے کہا: ’’انسانوں کو آبادی کم کرنے کی تعليم دينا ايک الگ بات ہے ليکن عورتوں کو حمل گرانے اور رحم مادر ميں بچوں کو ہلاک کرنے پر مجبور کرنا اس سے بالکل مختلف بات ہے۔ چينی حکومت کی ايک بچے کی پاليسی ايک جبر اور عورتوں کے حقوق کی شديد خلاف ورزی ہے۔‘‘

ايک صدی قبل کے جرمن اخبارات ميں اس وقت برپا چينی انقلاب کی خبريں
ايک صدی قبل کے جرمن اخبارات ميں اس وقت برپا چينی انقلاب کی خبريںتصویر: DW/Yuhan Zhu

لٹل جون نے کہا کہ جبری اسقاط حمل نجی زندگی کے دائرے اور عورتوں کے حقوق ميں زبردست مداخلت ہے۔ پروفيسر سياؤ جينگ نے ايک بچے کی پاليسی کے خاتمے کی اپيل کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پورے چينی معاشرے پر برے اثرات پڑ رہے ہيں۔ بہن بھائيوں کے ساتھ مل جل کر بڑا ہونے کے مقابلے ميں بہت سے اکلوتے بچوں ميں معاشرتی ميل جول کی صلاحيت بہت کم ہوتی ہے۔

رپورٹ: سی گونگ فشر / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں