اٹارنی جنرل کا استعفیٰ، حما میں سکیورٹی فورسز کے چھاپے
1 ستمبر 2011یوٹیوب پر جاری کردہ بیان میں شہر کے مستعفی ہونے والے اٹارنی جنرل نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے جیل میں قید 72 افراد کو ہلاک کیا۔ اٹارنی جنرل نے الزام عائد کیا کہ ہلاک کیے جانے والے افراد میں مظاہرین کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان بھی شامل تھے۔ صرف حما شہر میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری کریک ڈاؤن میں اب تک چار سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا، ’میں، جج عدنان محمد البقور، حما شہر کا اٹارنی جنرل، یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے پرامن مظاہرین کے خلاف حکومتی فورسز کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف استعفیٰ دے دیا ہے۔‘
محمد البقور کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اس ویڈیو کے منظر عام کے بعد سے لاپتہ ہیں اور ممکنہ طور پر انہیں سکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا ہے۔ سرکاری میڈیا ان خبروں کی تردید کر رہا ہے۔
حما بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کے حوالے سے شام کے نمایاں ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اسی وجہ سے امریکی سفیر برائے شام بھی دو مرتبہ اس علاقے کا دورہ کر چکے ہیں۔
حما شہر کے رہائشیوں کے مطابق گھر گھر چھاپے مارنے اور تلاشی لینے والے سکیورٹی فورسز کے ان اہلکاروں کو ٹینکوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ اس سے قبل حما کے دو اضلاع میں چھاپے مار کر درجنوں نوجوانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
بشار الاسد حکومت کے خلاف رواں برس مارچ کے وسط سے شروع ہونے والے مظاہروں کی روک تھام کے لیے بشار الاسد حکومت کی جانب سے طاقت کا تمام ممکنہ استعمال کیا جا رہا ہے، تاہم مظاہروں کی شدت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق ابتدا میں جمہوریت پسندوں کے ان مظاہروں میں ملک میں سیاسی اصلاحات کے مطالبات کیے جاتے تھے، تاہم اب مظاہرین صرف ایک ہی مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بشار الاسد اقتدار سے الگ ہوں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ لیبیا میں معمر قذافی جیسے مضبوط حکمران کے خلاف باغیوں کی فتح سے ان مظاہروں کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شامل شمس