'اکھنڈ بھارت' نقشے پر پڑوسی ممالک کی بھارت سے بڑھتی ناراضی
5 جون 2023بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں 'اکھنڈ بھارت' کا ایک نقشہ بھی آویزاں کیا گیا ہے، جس میں پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش کو بھی بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کو ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کی خواہش کردہ نظریاتی ہندو ریاست کی علامت اور 'توسیع پسندانہ ذہنیت‘ کا اظہار قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی مذمت ہے۔ اس سے قبل پاکستانی وزارت خارجہ اور نیپال کے دو سابق وزرائے اعظم بھی اس نقشے پر کڑی تنقید کر چکے ہیں۔
آر ایس ایس کے 'اکھنڈ بھارت' کے خواب کی تعبیر کیا ممکن ہے؟
بھارت کے پڑوسی ممالک کی ناراضی کا سبب پارلیمانی امور کے بھارتی وزیر پرہلاد جوشی کی وہ ٹویٹ بھی بنی، جس میں انہوں نے لکھا، ''مقصد بالکل واضح ہے ... اکھنڈ بھارت۔‘‘ حکمران جماعت بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے تاہم صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ نقشہ اکھنڈ بھارت کا نہیں بلکہ اشوک کے دور حکومت کا ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمانہ قدیم سے عہد وسطیٰ اور عہد حاضر تک بھارت کا کوئی متعین نقشہ ہی نہیں تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قدیم تاریخ کے استاذ پروفیسر پربھات کمار بسنت نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اکھنڈ بھارت کی تصویر میں نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان کو شامل کیا گیا ہے، تو اس پر اعتراض بالکل درست اور جائز ہے۔
پروفیسر بسنت کا کہنا تھا، ''یہ تمام اب آزاد ممالک ہیں اور آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کو سب سے پہلے دوسرے ملک کی خود مختاری تسلیم کرنا پڑتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سرحدوں کو تسلیم کیا جائے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے ملک کے علاقے کو اپنا علاقہ دکھایا جائے۔ یہ غلط طریقہ ہے اور اس پر اعتراض بالکل جائز ہے۔‘‘
بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت افتتاح سے پہلے ہی متنازعہ
سینیئر صحافی سبھاشیش میترا کا کہنا تھا، ''ماضی میں بھارت کا کوئی طے شدہ اور مسلمہ نقشہ نہیں تھا اور اس میں بارہا تبدیلیاں ہوئیں۔ اگر یہ نقشہ خارجہ پالیسی سے ٹکراتا ہے، تو اس نقشے کو درست نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''حال سے نگاہیں چرانے کے لیے اکثر ماضی اور روایات کو ملا کر ایک بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی وزراء آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے نظریے کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش کا اعتراض
بنگلہ دیش نے حالانکہ حکومتی سطح پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا مگر اپوزیشن جماعتوں نے اکھنڈ بھارت کے اس نقشے پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس اقدام نے بنگلہ دیش کی خود مختاری کے لیے خطرہ اور علاقائی سیاست میں ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔
اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخر السلام عالمگیر نے اسے بنگلہ دیش کی آزادی میں سنگین مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا، ''یہ بنگلہ دیش اور دیگر پڑوسی ممالک کے حوالے سے بھارت کی ایک شرمناک حرکت ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو اس پر فوراً احتجاج کرنا چاہیے۔‘‘
بنگلہ دیش کی آزادی کے تحریک میں شامل اہم رہنما عبدالقادر صدیق نے اسے بھارت کا ایک خراب فیصلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''میرے خیال میں اس واقعے کے پیچھے بھارت کا مقصد اچھا نہیں ہے۔ اس نے علاقائی سیاست میں ایک خراب مثال قائم کی ہے۔‘‘
بنگلہ دیش میں حکمران عوامی لیگ کے رکن حسن الحق کا کہنا تھا، ''1947 کے بعد اکھنڈ بھارت جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ بھارتی پارلیمان میں اس طرح کا کوئی نقشہ نہیں ہونا چاہیے۔" انہوں نے امید ظاہر کی کہ بھارت جلد ہی اپنی اس غلطی کی اصلاح کر لے گا۔
پاکستان نے بھی اعتراض کیا؟
پاکستان نے بھی بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں اکھنڈ بھارت کے نقشے کی تصویر آویزاں کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا، ''اکھنڈ بھارت کا بےجا دعویٰ ایک نظرثانی شدہ اور توسیع پسندانہ ذہنیت کا مظہر ہے، جو نہ صرف بھارت کے ہمسایہ ممالک بلکہ اس کی اپنی مذہبی اقلیتوں کی شناخت اور ثقافت کو بھی مسخر کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تسلط پسندی اور توسیع پسندانہ عزائم کو پروان چڑھانے کے بجائے بھارت کو ایک پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیا کے لیے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جملہ تنازعات کو حل کرنا چاہیے۔
نیپال کے سابق وزرائے اعظم کی جانب سے بھی مذمت
نیپال نے گوکہ اس بارے میں حکومتی سطح پر فی الحال کوئی بیان نہیں دیا تاہم دو سابق وزرائے اعظم سمیت متعدد نیپالی سیاست دانو ں نے اسے 'تسلط پسندانہ عزائم اور توسیع پسندانہ ذہنیت‘ کی مثال قرار دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم بابو رام بھٹائی رائی نے یہ نقشہ آویزاں کیے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کے درپردہ مقاصد خود بخود واضح ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''اس نئی پیش رفت سے پہلے سے ہی دونوں قریب ترین پڑوسیوں کے درمیان کشیدہ باہمی تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ اس سے غیر ضروری اور نقصان دہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ بھارتی سیاسی قیادت کو بتانا چاہیے کہ اس تصویرکے پیچھے اس کا اصل مقصد کیا ہے۔‘‘
ایک اور سابق نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے کہا، ''بھارت خود کو سب سے قدیم اور ایک مثالی جمہوری ملک قرار دیتا ہے لیکن نیپالی علاقوں کو اپنے نقشے میں شامل کر کے اس نقشے کو پارلیمان میں آویزاں بھی کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات مناسب قرار نہیں دی جا سکتی۔‘‘
اکھنڈ بھارت ہے کیا؟
سن 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے حکمران جماعت بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس اور اس کی حلیف ہندو قوم پرست جماعتوں نے ایک 'اکھنڈ بھارت‘ کا راگ زور شور سے الاپنا شروع کر دیا ہے۔
آر ایس ایس کے مطابق اکھنڈ بھارت کی سرحدیں افغانستان سے لے کر میانمار اور تبت سے لے کر سری لنکا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آر ایس ایس سے وابستہ ایک اشاعتی ادارے نے سن 2020میں ایک نقشہ شائع کیا تھا جس میں پڑوسی ممالک اور ان کے شہروں کے ہندو نام لکھے گئے تھے۔
جو ہندو، مسلمانوں کو بھارتی نہ سمجھے وہ ہندو نہیں، آر ایس ایس سربراہ
اس نقشے میں مثلاﹰ افغانستان کو 'اپگنتھان‘، کابل کو'کوبھا نگر‘ ، پشاور کو 'پشپ پور‘، ملتان کو 'مول ستھان‘، تبت کو 'تری وستھاپ‘، سری لنکا کو 'سنگھل دویپ‘ اور میانمار کو 'برہم دیش‘ لکھا گیا تھا۔
آر ایس ایس کے سینیئر رہنما اور بی جے پی کے جنرل سیکرٹری رام مادھو کے مطابق، ''آر ایس ایس کو یقین ہے کہ ایک دن یہ سب خطے بھارت کا حصہ بن جائیں گے۔ لوگوں میں خیر سگالی اور باہم ایک دوسرے کے قریب آنے سے ایک اکھنڈ بھارت قائم ہو جائے گا۔‘‘
’آر ایس ایس کے وزیر اعظم نے بھارت ماتا سے جھوٹ بولا ہے‘
پربھات کمار بسنت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت میں بہت سے راجاؤں نے بڑے علاقوں پر حکومت ضرور کی، لیکن اکھنڈ بھارت نہ تو قدیم بھارت میں تھا اور نہ ہی عہد وسطیٰ میں۔ دنیا میں کہیں بھی راشٹر جیسی کوئی چیز پہلے نہیں تھی۔ ڈیڑھ دو سو برس پہلے تک بھی لوگ کہیں بھی جا کر بس جاتے تھے۔ ان کے لیے ان کو کسی بھی ویزا یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
قدیم تاریخ کے پروفیسر بسنت نے مزید کہا کہ دراصل آج جب اکھنڈ بھارت کی بات کہی جاتی ہے، تو اس میں مذہب واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ''اس اصطلاح کے تصور میں ہی کہیں نہ کہیں ہندو اور ہندتوا کے تصورات جڑے ہوئے ہیں اور یہ کافی گہرائی تک پیوست ہیں۔‘‘
بھارت: ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی بی جے پی کوششیں
خیال رہے کہ بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت 28 مئی کے روز اپنے باقاعدہ افتتاح کے بعد سے مسلسل تنازعات سے دوچار ہے۔ ملکی اپوزیشن جماعتوں نے اس میں ہندو مذہبی علامت 'سینگول‘ کی تنصیب کی بھی مذمت کی تھی اور وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں عمارت کے افتتاح کی تقریب کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔