1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اگر ایرانی بحری جہاز پکڑے گئے تو بدلہ لیا جائے گا، تہران

15 فروری 2024

ایرانی صدر کے قانونی مشیر نے امریکہ کے محکمہ انصاف کے ایک بیان کے جواب میں کہا ہے کہ اگر ایران کے بحری جہاز پکڑے گئے تو ایران اس کا بدلہ لے گا۔

https://p.dw.com/p/4cQYF
Seemanöver der Revolutionsgarden vor iranischer Küste
تصویر: picture alliance / dpa

جمعرات کو اپنے سرکاری میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایرانی صدر کے قانونی مشیر نے رواں ماہ امریکہ کے محکمہ انصاف کی طرف سے ایرانی ایندھن کو ضبط کیے جانے کے اعلان  کے ضمن میں بات کی۔ امریکی محکمہ انصاف نے اعلان کیا تھا کہ 5 لاکھ بیرل سے زیادہ ایرانی ایندھن ضبط کر لیا جائے گا تاکہ ایران  کے 'انقلابی گارڈز یا پاسداران‘ کی مالی امداد کے نیٹ ورک کو روکا جا سکے۔

ایرانی صدر کے مشیر محمد دہقان نے اپنے بیان میں کہا، '' اگر کوئی ایرانی جہاز پکڑا جاتا ہے، تو ہم اس کا بدلہ لیں گے۔‘‘ دہقان نے ساتھ ہی اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے یا اس امر کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ امریکی حکام نے ایرانی بحری جہاز کو قبضے میں لیا تھا۔

ایران کے عدالتی نظام کی طرف سے ایسے عدالتی احکامات اکثر جاری ہوتے رہتے ہیں، جن کی بنیاد پر انقلابی گارڈز یا پاسداران کی طرف سے غیر ملکی ٹینکرز کو قبضے میں  لیا جاتا ہے۔

Jemen Sanaa 2024 | Ausstellung von Huthi-Drohnen und -Raketen in Sanaa
صنعاء میں حوثی باغیوں کے ڈرون اور راکٹوں کی نمائشتصویر: Osamah Yahya/ZUMA Press Wire via picture alliance

گزشتہ سال یعنی 2023 ء کے آخر میں بحیرہ احمر  میں عالمی شپنگ کے نظام میں کافی خلل پیدا ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حماس اور اسرائیل کی جنگ ہے۔ اس تناظر میں ایرانی حمایت یافتہ یمنی حوثی جنگجوؤں کی طرف سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی حمایت کرتے ہوئے حوثی باغیوں کے گروپ نے بحیرہ احمر میں متعدد مغربی جہازوں کو نشانہ بنایا۔

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار

یاد رہے کہ نئے سال یعنی 2024 ء کے آغاز سے ہی تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ بحیرہ احمر میں امریکی قیادت والے  فوجی اتحاد اور حوثی ملیشیا کے مابین کشیدگی ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے حق میں ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں واشنگٹن میں قائم انفارمیشن ریسرچ سینٹر برائے یمن کے سابق ڈائریکٹر ہشام العمیسی نے ایک بیان میں کہا تھا، ''حوثی باغی امریکہ کے ساتھ تصادم کا موقع تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ مزید برآں  ان کا کہنا تھا، ''پچھلے آٹھ سالوں سے حوثی اپنے حامیوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​میں ہیں لہذا یہ ان کے لیے ایک سنہری موقع ہے، جس سے انہیں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

Lenkwaffenzerstörer der Arleigh Burke-Klasse USS Carney (DDG 64)
بحیرہ روم میں بھی امریکی جہاز اور انٹی شپ میزائلز تعینات ہیںتصویر: Xavier Jimenez/US NAVY/AFP

یمن دراصل 2014 ء سے حالت جنگ میں ہے۔ تب حوثی باغیوں نے یمن کیسعودی  حمایت یافتہ حکومت کے خلاف مزاحمت شروع کی تھی اور جو بعد ازاں جنگ یک صورت اختیار کر گئی۔ نو سال سے جاری اس جنگ میں یمن حوثیوں کے زیر کنٹرول ملک کے شمال اور مغرب میں تقسیم ہو گیا۔ حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں آبنائے باب المندب بھی شامل ہے، جو بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے لیے ایک اہم ترین سمندری گزر گاہ ہے۔ یمن کے جنوب میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا  کنٹرول ہے جب کہ مشرق میں مقامی قبائلیوں کا غلبہ ہے۔

تجزیہ کار ہشام العمیسی کے مطابق بحیرہ احمر میں ایک مال بردار بحری جہاز  پر حوثیوں کے ڈرون حملے کی قیمت تقریباً 1,200 ڈالر  ہے، جبکہ امریکی فوجی اتحاد کے حوثیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک بم کی قیمت تقریباً 1.5 ملین ڈالر ہے۔

ک م/ ع ب(روئٹرز)