اہم شخصیات کی سیکورٹی اور پنجاب یونیورسٹی کی خدمات
27 جنوری 2011پاکستان میں سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں گورنر پنجاب کے قتل کے بعد اہم شخصیات کی سیکورٹی کے نظام کو ازسرنو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکام سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے نفسیاتی تجزیے کی ایک تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نے اس سلسلے میں حکومت کو اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ مذید تفصیلات لاہور سے ہمارے ساتھی تنویر شہزاد کی اس رپورٹ میں
پاکستان میں اہم شخصیات کے حفاظتی نظام میں آجکل بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سنیئر حکام پر مشتمل ایک اعلی سطحی کمیٹی آجکل اس سلسلے میں اپنی سفارشات کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے، محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق اہم شخصیات کے سکیورٹی اسکواڈز میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو بطور سکیورٹی گارڈ شامل کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ مشکوک ماضی رکھنے والے کئی سکیورٹی گارڈز کو پچھلے تین ہفتوں میں اہم شخصیات کی سکیورٹی سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے تصدیق کی کہ حکومت سکیورٹی پر مامور سینیئر اہلکاروں کی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے ذریعے تربیت کے معاملے کو حتمی شکل دے رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی سروس بک سے پتہ چلا ہے کہ کہ وہ بنیاد پرستانہ خیالات کا حامل تھا اور وہ ماضی میں بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان رکھتا تھا۔ رانا ثنا کے مطابق ہم اب اس سلسلے کی روک تھام کے لیئے موثر اقدامات اٹھا رہے ہیں،
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اہم شخصیات کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کے نفسیاتی تجزیے کے لیے پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ نفسیات مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے ماہرین سکیورٹی اہلکاروں کے مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے بتا سکتے ہیں کہ کونسا شخص اپنے جذبات پر کس قدر کنٹرول رکھتا ہے،" کس فرد میں برداشت کا جذبہ کتنا ہے؟ کون سا اہلکار اسلحے کے استعمال میں بے احتیاطی برت سکتا ہے؟ کس پولیس والے کا ماضی یا اسکے گھر کے حالات اس کے عمل پر اثر انداز ہو کر کس طرح اس کے طرز عمل کی وجہ بن سکتے ہیں ؟ ڈاکٹر مجاہد کامران کے مطابق ان سارے سوالات کا جواب سائینسی بنیادوں پر آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات جدید علوم کی مدد سے انسانوں کے اندر جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی سے رابطہ کیا ہے اور عنقریب اس سلسلے میں کام شروع ہو جائے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے پنجاب یونیورسٹی میں دہشت گردی اور اسکے پاکستانی معاشرے پر اثرات کے حوالے سے کئی محققین تحقیق کر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ان تعلیمی اداروں میں شامل رہی ہے جن پر دہشت گردانہ حملوں کے خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں لیکن پنجاب کے وزیر قانون کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کا ترتیب دیا ہوا سکیورٹی کا نظام صوبے کے دیگر اداروں میں مثالی نمونے کے طور پر اختیار کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: کشور مصطفیٰ