سلمان تاثیر کا قاتل پر امید اور مطمئن
16 جنوری 2011پنجاب پولیس کے اہلکارممتاز قادری نے چار جنوری کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس وقت ستائیس گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ گورنر کے سکیورٹی دستے میں شامل تھا۔ ممتاز قادری کا کہنا ہے کہ اس نے یہ قتل اس لیے کیا کہ سلمان تاثیر نے ’’توہین رسالت سے متعلق قانون کے بارے میں متنازعہ کلمات‘‘ ادا کیے تھے۔
سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کو عالمی سطح پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ کئی مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات سے گریز کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔
پچیس سالہ ممتاز قادری کے بھائی دل پذیر اعوان نے کہا ہے کہ خفیہ ادارے ان سے اور ان کے رشتہ داروں سے اس بارے میں تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا ممتاز قادری کا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے کوئی تعلق تھا۔ اعوان نے تاہم کہا کہ اسے یقین ہے کہ ممتاز قادری کا گورنر پنجاب کو قتل کرنا اس کا ذاتی فعل تھا۔ ’’اگر خدا نے چاہا، ہمیں امید ہے کہ ہمیں عدالت سے انصاف ضرور ملے گا۔‘‘
لبرل خیالات کے مالک سلمان تاثیر کی طرف سے توہین رسالت سے متعلق قانون کو مبینہ طور پر کالا قانون قرار دیے جانے پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں سمیت کئی حلقوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاثیر کے قتل کے لیے فتوے بھی جاری کیے گئے تھے۔ اس صورتحال میں ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے ممتاز قادری کو سزا دلوانا انتہائی مشکل ہو گا۔
اگرچہ قادری نے اعتراف جرم کر لیا ہے کہ گورنر کا قتل اس کا ذاتی فعل تھا، جس میں کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے تاہم تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مذہبی جماعتوں کے دباؤ کے نتیجے میں حکومت پاکستان اس قتل سے متعلق تحقیقاتی عمل کو انتہائی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھائے گی۔
پاکستان کے پانچ سو سے زائد وکلاء نے قادری کے دفاع کے لیے اپنی قانونی خدمات مفت فراہم کرنے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ قادری کے ایک وکیل کا کہنا ہے، ’اگر حکومت اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے سلمان تاثیر کے اہل خانہ کو راضی کرنا ہو گا کہ وہ قادری کو معاف کر دیں۔‘
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک