ای یو کی رپورٹ: پاکستان میں پذیرائی بھی اور بحث بھی
22 نومبر 2023یورپی یونین کی طرف سے چوتھی جی ایس پی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے اور سول سوسائٹی کے حوالے سے صورتحال ویسے ہی ہے جیسے کہ 2020 میں تھی۔ اس رپورٹ پر کئی حلقے مثبت قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ اس پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
طالبان نے خواتین کے حقوق کو شدید پامال کیا، یورپی یونین
عمران خان کی گرفتاری پر عالمی ردِعمل، قانون کے احترام پر زور
یورپی یورپین کمیشن اور یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس کی اس مشترکہ رپورٹ کو منگل کو جاری کیا گیا، جس میں اعتراف کیا گیا کہ خواتین، بچوں خواجہ سراؤں اور ماحولیات کے حوالے سے اقدامات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم کئی دوسرے معاملات میں صورت حال امید افزا نہیں ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کئی صحافیوں پہ متشدد حملے ہوئے اور انہیں غائب کیا گیا۔ ناقدین کے خلاف آن لائن ٹرولنگ بھی کی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے صحافیوں نے اپنے تحفظ کے لیے سیلف سینسرشپ کا انتخاب کیا۔ جبری طریقے انسانی حقوق کے کارکنان، سیاسی کارکنان اور منتخب نمائندوں کے خلاف بھی استعمال کیے گئے، جس سے ان کی آزادیاں محدود ہوئیں اور آزادیاں محدود کرنے کے لیے انتظامی، قانونی اور دوسرے طریقے استعمال کیے گئے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہپاکستان اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مقامی برانچ قائم کرنے میں مدد کرے۔
جی ایس پی کا پس منظر
واضح رہے کہ اکتوبر میں پاکستان کے جی ایس پی پلس کا درجہ چار سال کے لیے بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اسٹیٹس کے پاس پاکستان بہت کم ڈیوٹی یا ڈیوٹی کے بغیر یورپین مارکیٹ میں اپنی مصنوعات بھیج سکتا ہے۔
پاکستان کو یہ اسٹیٹس کئی برسوں سے حاصل ہے اور ملک کو اس سے فائدہ بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے تجارتی حجم، جو دوہزار تیرہ میں 8.3 ارب یورو تھا، بڑھ کر اب 14 ارب یورو سے زیادہ ہو چکا ہے۔
رپورٹ کی پذیرائی
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن خیال یہ کیا جاتا ہے کہ ملک میں جب جبر کا ماحول بڑھتا جا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر اقلیتوں، چھوٹی قوموں اور تنقیدی سوچ رکھنے والوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کے کئی کارکنان نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانے والی سمی دین بلوچ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یورپی یونین نے ایسا کر کے ان لوگوں کے حوصلے بڑھائے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یورپی یونین کے علاوہ دوسری بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس حوالے سے صدائے احتجاج بلند کریں۔‘‘
معاونت کو مشروط کیا جائے
سمی دین بلوچ کے مطابق بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو اگر کسی بھی طرح کی مالی معاونت دے رہے ہیں تو اس مالی معاونت کو انسانی حقوق کی بہتری سے مشروط کیا جائے۔ '' ملک میں ہزاروں لوگ گمشدہ ہیں اور جبری طور پہ گمشدگی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اگر بین الاقوامی تنظیم موثر طور پر پاکستان پر دباؤ ڈالیں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘
رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا جائے
خیال کیا جاتا ہے کہ کئی بین الاقوامی ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن پاکستان کے حاکم طبقات اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل ناصر منصور کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس رپورٹ کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دینے کے لیے 27 نکات مقرر کیے ہیں، جس میں سے پاکستان کئی نقات پر پہلے ہی گرے ایریا میں جیسا کہ سزائے موت، مزدوروں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ۔ اگر پاکستان نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ملک کو معاشی طور پر بہت نقصان ہوگا۔‘‘
ناصر منصور کے مطابق پاکستان نے 14 ارب یورو سے زیادہ کی تجارت کی ہے اور اس تجارت پر لاکھوں مزدوروں کی نوکریوں کا انحصار ہے۔
صورت حال کیوں نہیں بدلی؟
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسد بٹ کا کہنا ہے کہ 2020 سے لے کر اب تک انسانی حقوق کی صورتحال میں تبدیلی اس وجہ سے نہیں آئی کہ اس میں کسی کی دلچسپی نہیں ہے اور ملک کے تمام اداروں پر جی ایچ کیو کا غلبہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جو بھی انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے، اس کو دبا دیا جاتا ہے جبکہ سیاستدان اس مسئلے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ جبری جبری گمشدگیوں اور میڈیا پہ قدغنوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں لیکن بعد میں وہ طاقتور حلقوں کے سامنے جھک جاتے ہیں۔‘‘
اسد بٹ کے مطابق ماضی میں مریم نواز اور عمران خان نے بھی گمشدہ افراد کے حوالے سے وعدے کیے تھے۔ '' لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب اپنے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ملک میں غائب ہیں لیکن اس اہم مسئلے پر سیاسی جماعتیں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
اسد بٹ کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کا احترام وہاں ہوتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ''یہاں تو اسٹیبلشمنٹ نے تمام اداروں پہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ میڈیا، عدالتیں، سیاستدان اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں سب ان کے سامنے بے بس ہیں۔ کئی سول سوسائٹی کی تنظیموں کو انہوں نے تقریبا صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے تو ایسے میں انسانی حقوق کی صورتحال کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی پر مناسب بین الاقوامی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے اندر انسانی حقوق کے کارکنان اور عدلیہ پاکستانی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ جبری گشمدگی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشنز کی منظوری دے۔‘‘
طاہرہ عبداللہ کے مطابق اگر ملکی دباؤ کام نہ کرے تو پھر بین الاقوامی مالی معاونت ایک لیوریج کے طور پر استعمال کیا جائے۔