ایران اور عرب ملکوں میں کشیدگی، ذمہ دار امریکہ ہے، ایرانی صدر
18 اپریل 2011پیر کے روز سالانہ فوجی پریڈ کے دن خطاب کرتے ہوئے سخت گیر موقف کے حامل ایرانی صدر کا کہنا تھا، ’’امریکہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان فساد پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ ایران اور عرب ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس کا یہ منصوبہ ناکام ہو کر رہےگا۔‘‘
سالانہ فوجی پریڈ ڈے کے موقع پر مقامی سطح پر تیار کیے گئے ڈرون طیاروں اور میزائلوں کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔
سرکاری ٹیلی وژن پر لائیو نشر ہونے والی اپنی تقریر میں ایرانی صدر کا مزید کہنا تھا، ’’امریکہ ایک ایماندار دوست نہیں ہے۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ امریکہ نے اپنے دوستوں کے خلاف تلواروں کا استعمال کیا۔ ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، جنہوں نے اس کے لیے قربانیان دیں۔ امریکہ نے یہ سب کچھ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا۔ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اب قوموں کے درمیان اس کی جگہ نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’امریکہ میں بیٹھے ’یہودی‘ رہنما بھی اسرائیل میں قائم ’صیہونی حکومت‘ کو بچانے میں ناکام ہو جائیں گے۔‘‘
احمدی نژاد کے اس بیان سے پہلے، خلیجی تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک نے ایرانی حکومت کو اپنے ملکوں میں ’مداخلت‘ بند کرنے پر زور دیا تھا۔ خلیجی تعاون کونسل نے بین الاقوامی برادری اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی تھی کہ ان کے ممالک میں ’کھلی ایرانی مداخلت‘ کے خلاف ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اس گروپ کا کہنا تھا کہ ایران ان کے ممالک میں فساد پیدا کرنا چاہتا ہے۔
خلیجی تعاون کونسل میں شامل ملکوں بحرین، کویت، اومان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے واضح طور پر ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو مسترد کیا تھا۔ اس گروپ کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت ان کے ملکوں میں اشتعال پیدا کرنے سے باز رہے۔
سعودی عرب نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے سفارتکاروں کو بہتر حفاظت فراہم نہ کی گئی تو تہران سے ان کو واپس بلایا جا سکتا ہے۔
ایک ہفتہ قبل ایرانی طلبا کی طرف سے تہران میں سعودی سفارتخانے کے باہر، بحرین میں فوجی مداخلت اور وہاں کے شہریوں کے قتل کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تھا۔
ایران کی اکثریتی آبادی شیعہ ہے اور تہران حکومت بحرین میں جاری مظاہروں کی حمایت کرتی ہے۔ بحرین کی زیادہ تر آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ وہاں حکومت سنی مسلمانوں کی ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: کشور مصطفیٰ