ایران میں صدارتی انتخابات، نوجوانوں کی دلچسپی کم
18 جون 2021ایران میں 18جون جمعے کی صبح کو نئے صدر کے انتخابات کے لیے پولنگ شروع ہوئی جو شام تک جاری رہے گی۔ ان انتخابات میں ویسے تو کئی امیدوار میدان میں ہیں تاہم مقابلہ قدامت پسند نظریات کے حامل شیعہ عالم ابراہیم رئیسی اور قدر ے اعتدال پسند سینٹرل بینک کے سابق گورنر عبد الناصر کے درمیان ہے۔
لیکن ایران کے مذہبی پیشوا اور رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کے پسندیدہ امیدوار ابراہیم رئیسی ہیں اور تمام جائزوں کے مطابق انہیں کی کامیابی کے زیادہ امکانات بھی ہیں۔
ایران کے رہبر اعلی خامنہ ای نے تہران میں جمعے کی صبح اپنا ووٹ ڈالا اور لوگوں سے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے اپیل بھی کی۔ ان کا کہنا تھا، ''ہر ایک ووٹ شمار کیا جاتا ہے، باہر نکلو اور ووٹ ڈال کر اپنے صدر کا انتخاب کرو۔ یہ آپ کے ملک کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''آج پولنگ کے دن شام تک جو کچھ بھی ایرانی عوام کریں گے وہ ملک کے مستقبل کو سنورانے کے لیے اہم ہے۔ صبح ہی سے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ مراکز کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
تاہم ملک معاشی بدحالی اور زبردست بے روز گاری کے درمیان مہنگائی کی مار جھیل رہا ہے۔ بعض سیاسی پابندیوں کی وجہ سے امیدواروں کی تعداد بھی مختصر ہے اس لیے نوجوانوں میں انتخابات کے تئیں وہ جوش و خروش نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف سے بات چیت کرتے ہوئے تہران کے ایک میکنیک نصراللہ کا کہنا تھا، ''میں سیاست دان تو ہوں نہیں نہ ہی مجھے سیاست کی سمجھ ہے۔ میرے پاس تو ایک بھی پیسہ نہیں ہے۔ تمام خاندان اسی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم ان افراد کے لیے کیسے ووٹ کریں جنہوں نے ہمارا یہ حال کر دیا ہے۔ کیا میں صحیح نہیں ہوں؟''
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران میں نوجوان نسل حقیقی جمہوریت کی متمنی ہے اور اسی لیے وہ سیاسی عمل میں کوئی زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی ہے۔
امیدوار کون کون ہیں؟
ابتدا میں ابراہیم رئیسی کے ساتھ ساتھ جوہری پروگرام کے سابق مذاکرات کار سعید جلیلی، پاسداران انقلاب فورسز کے سابق کمانڈر محسن رضائی، سابق رکن پارلیمان علی رضا ذکانی، موجودہ رکن پارلیمان امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی، سابق ریاستی گورنر محسن مہر علی زادہ اور ایران کے مرکزی بینک کے موجودہ سربراہ عبد النّاصر ہمّتی کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم جمعرات کے روز سعید جلیلی، علی رضا ذکانی اور محسن مہر علی زادہ نے مقابلے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے اب اہم مقابلہ رئیسی اور عبد الناصر کے درمیان ہے۔
ابراہیم رئیسی کو سن 2017 کے انتخابات میں 38 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور انہیں صدر حسن روحانی نے شکست دے دی تھی۔ آئین کی رو سے کو ئی بھی امیدوار مسلسل تیسری بار صدارتی انتخاب نہیں لڑ سکتا اس لیے صدر روحانی اس بار اس دوڑ سے باہر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ابراہیم رئیسی ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کے بھی پسندیدہ امیدوار ہیں۔
تمام جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سخت گیر موقف کے حامی ابراہیم رئیسی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو جائیں گے۔
نئے صدر اور مغربی دنیا سے پیچیدہ تعلقات
بین الاقوامی مبصرین اور سفارتکاروں کا خیال ہے کہ اٹھارہ جون کے صدارتی انتخابات کا براہِ راست اثر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے پر مرتب ہو گا۔ اب تک عالمی طاقتیں قدرے اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ساتھ مکالمت کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اب آٹھ برس منصب صدارت پر فائز رہنے کے بعد روحانی کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سخت گیر موقف رکھنے والے امیدوار انتخابی مہم کے دوران اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں امریکا کو اپنا ہدف بنائے ہوئے تھے اور کسی ایسے امیدوار کی کامیابی سے بات چیت کا عمل مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سخت گیر صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد بات چیت کو نئی رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایران اس وقت ٹرمپ دور میں عائد کی جانے والی شدید نوعیت کی اقتصادی پابندیوں میں تبدیلی کا خواہشمند ہے اور دوسرا فریق یعنی عالمی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام کی نگرانی مزید سخت کرنے کے ساتھ ساتھ یورینیم کے ذخیرے کو بھی محدود کر دیا جائے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)