ایران میں پرتشدد مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 20 ہو گئی
2 جنوری 2018ایرانی دارالحکومت تہران سے منگل دو جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق سرکاری ٹیلی وژن نے بتایا کہ پیر یکم جنوری اور منگل دو جنوری کی درمیانی شب پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں اور بدامنی کے واقعات میں کم از کم بھی مزید نو افراد ہلاک ہو گئے۔ اس طرح گزشتہ چھ دنوں کے دوران اس بدامنی میں بے تحاشا مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ انسانی ہلاکتوں کی کم از کم تعداد بھی اب 20 ہو گئی ہے۔
کیا پاکستان ایران مخالف اتحاد کا حصہ بنے گا؟
مغربی ایران میں دو مظاہرین ہلاک
سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق ان مظاہروں کے دوران گزشتہ رات کم از کم چھ ’بلوائی‘ اس وقت مارے گئے، جب قھدریجان کے قصبے میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملے کے دوران مسلح اہلکاروں نے انہیں گولی مار دی۔ ان مظاہرین کا پولیس کے ساتھ تصادم اس وقت شروع ہوا، جب انہوں نے قھدریجان کے پولیس اسٹیشن سے ہتھیار چوری کرنے کی کوشش کی۔
اس کے علاوہ گزشتہ رات ہی ایک گیارہ سالہ لڑکا اور ایک بیس سالہ نوجوان خمینی شہر میں ہونے والے احتجاج کے دوران مارے گئے جبکہ نجف آباد کے شہر میں پاسداران انقلاب کے نیم فوجی دستوں کا ایک رکن فائرنگ کے نیتجے میں ہلاک ہو گیا۔
’دنیا دیکھ رہی ہے‘، ایران میں مظاہروں پر ٹرمپ کی تنبیہ
مظاہرین کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، ایرانی مذہبی رہنما
ایران کے خلاف ٹرمپ کو ناکامی دیکھنا پڑے گی، خامنہ ای
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ یہ تمام ہلاکتیں قھدریجان، خمینی شہر اور نجف آباد کے جن قصبوں یا شہروں میں ہوئیں، وہ سب کے سب وسطی ایران کے صوبے اصفہان میں واقع ہیں، جو ملکی دارالحکومت تہران سے قریب 215 میل یا 350 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ایران میں یہ مظاہرے اگرچہ ملک کے کئی حصوں میں ہو رہے ہیں تاہم ان میں اکثریت مختلف صوبوں کے چھوٹے شہروں اور قصبوں کی ہے۔ بڑے شہروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بہت بڑی تعداد میں تعیناتی کے باعث وہاں ایسی بدامنی مقابلتاﹰ کم دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ملکی دارالحکومت تہران میں پیر اور منگل کی درمیانی شب مظاہرین کے چھوٹے چھوٹے گروپ کئی علاقوں میں جمع ہو گئے تھے تاہم مقامی حکام کے بقول پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کی وجہ سے صورت حال قابو میں رہی۔
اسلامی عقائد کی خلاف ورزی، نرم رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ
یہ مظاہرے مہنگائی، بے روزگاری اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی پالیسیوں کے خلاف شروع ہوئے تھے اور ان میں شرکاء کی طرف سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای تک کے خلاف نعرے بازی دیکھی جا رہی ہے۔