ایران نے امریکی بحری مشن کے اراکین کو رہا کر دیا
13 جنوری 2016پاسداران کی بحریہ کے ایڈمرل کے مطابق منگل کو نیوی گیشن کی خرابی کے سبب غلطی سے ایرانی بحری حدود میں داخل ہونے والی کشتیوں کے عملے کے اراکین کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ان کی رہائی کے اعلان سے پہلے ایڈمرل علی فداوی نے عندیہ دیا تھا کہ ان امریکیوں کو جلد رہا کر دیا جائے گا تاہم اُنہوں نے کہا تھا کہ تہران نے واشنگٹن سے اس واقعے کے رونما ہونے پر معافی مانگنے کا مُطالبہ کیا ہے۔
قبل ازیں ایران کے ریوولوشنری گارڈز یا پاسداران انقلاب کی بحری فورسز کے کمانڈر ایڈمرل علی فداوی نے سرکاری ٹیلی وژن پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا، ’’غیر پیشہ ورانہ عمل خلیج فارس میں دو امریکی کشتیوں اور عملے کے دس ارکان کو حراست میں لیے جانے کے واقعے کا سبب بنا ہے‘‘۔ ایرانی ایڈمرل نے تفصیلات کا ذکر کیے بغیر اپنے بیان میں کہا کہ امریکی کشتیوں پر سوار عملے کی نقل و حرکت انتہائی مشکوک اور غیر پیشہ وارانہ تھیں۔ ان کے مطابق، ’’ان کی نقل و حرکت سے معلوم ہو رہا تھا کہ امریکی بحری عملے کو علاقائی سلامتی کے احترام اور اس بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔‘‘
ایڈمرل علی فداوی کے مطابق کسی بھی نیول کرافٹ کو ایران کے بحری حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی پیشگی طور پر حکام کو مطلع کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’امریکی بحری عملے نے کچھ زیادہ مزاحمت نہیں دکھائی تاہم بعد میں امریکی طیارہ بردار جہاز 40 منٹ تک غیر پیشہ ورانہ اور مشکوک قسم کی بحری اور فضائی نقل و حرکت کا مظاہرہ کرتا رہا۔‘‘
نیوز ایجنسی تسنیم کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایرانی ریوولوشنری گارڈز کے ایک ترجمان رمضان شریف نے اپنے بیان میں واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ’’اگر تفتیش کے دوران یہ پتہ چل گیا کہ امریکی بحری مشن خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے ایرانی بحری حدود میں داخل ہوا ہے تو اس کے عملے کے ساتھ اُن کا رویہ کہیں مختلف ہوگا۔‘‘
ایڈمرل فداوی نے آج بُدھ 13 جنوری کو سرکاری ٹیلی وژن پر دیے گئے بیان میں بتایا تھا کہ تفتیشی کارروائی مکمل کر لی گئی ہے اور نتائج سے پتہ چلا ہے کہ اس امریکی بحری مشن کا نیوی گیشن نظام خراب تھا جس کے سبب یہ مشن بھٹکتا ہوا ایرانی پانیوں میں داخل ہو گیا تھا۔ مزید یہ کہ اس کی نقل و حرکت کے مقاصد جاسوسی یا دشمنی نہیں تھے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی وژن رپورٹ کے مطابق ایڈمرل فداوی نے اس واقعے کی فوری اطلاعات ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو دے دی تھیں جنہوں نے اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اپنے امریکی ہم منصب جان کیری سے کہا تھا کہ ’’ہمارے علاقائی پانیوں میں امریکی بحری مشن کے گھُس جانے پر امریکا کو ایران سے معافی مانگنی چاہیے۔‘‘