1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی پارلیمانی الیکشن، کسی تبدیلی کی کوئی امید بجا ہے؟

28 فروری 2024

ایران میں یکم مارچ کو پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اب تک کی پیش گوئیاں ووٹروں کے کم ٹرن آؤٹ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ رائے دہندگان میں سے کسی کو بمشکل ہی یقین ہو گا کہ اس کا ووٹ ملک میں کوئی تبدیلی لا سکے گا۔

https://p.dw.com/p/4cz1c
Iran Tehran -  vor den Parlamentswahlen 2024
تصویر: Yuji Yoshikata/AP/picture alliance

اسلامی جمہوریہ ایران میں جمعہ یکم مارچ کو پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں، جن میں 61 ملین شہریوں کو نئی پارلیمان  کے انتخاب کی خاطر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ملکی رائے دہندگان کو ایران کے مذہبی امور کے ماہرین کی کونسل  ''مجمع تشخیص مصلحت نظام‘‘ کے انتخاب کے لیے بھی اپنا ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔ یہ کونسل ملکی سپریم لیڈر کا انتخاب کرتی ہے۔

انتخابات کے بارے میں عوامی رائے

تہران حکومت سے وابستہ ایک انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ملک بھر میں کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق اور ایرانی خبر رساں ادارے 'آذر قلم‘ کے حوالے سے پیش گوئی میں کہا گیا ہے کہ ملکی دارالحکومت تہران میں صرف 15 فیصد باشندے ان  انتخابات میں ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے گریزاں شہریوں میں سے کئی نے اپنی اس سوچ کی جو چند بڑی وجوہات بتائیں، ان میں پارلیمان کا غیر مؤثر ہونا، بدعنوانی اور بہتر مستقبل کی بہت کم امید سب سے نمایاں تھیں۔

Iran Präsidentschaftswahl 2021 | Wahllokal, Frau
اس بار ووٹرز ٹرن آؤٹ میں کمی کی پیشگوئی کی گئی ہےتصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق ملکی قانون ساز ادارے کی 290 نشستوں کے لیے تقریباً 15,200 امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملی ہے۔ صحافی مسیار خسروی  نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''زیادہ تر امیدوار، خاص طور پر چھوٹے انتخابی حلقوں میں، ڈاکٹر، انجینئر یا پھر ایسے سرکاری ملازمین اور اساتذہ ہیں، جن کا تعلق کسی سیاسی گروپ سے نہیں ہے۔‘‘ مسیار خسروی نے مزید کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں انتخابی امیدواروں کو ووٹ ڈالے جانے کی اجازت دے کر حکومت ''مقامی سطح پر زیادہ مقابلہ بازی کروا کر ووٹروں کی انتخابی عمل میں شرکت میں اضافہ‘‘ کرنا چاہتی ہے۔

موسیقی اور پارٹیاں انتخابی مہم کا حصہ

یکم مارچ کے ملکی پارلیمانی الیکشن  کے لیے انتخابی مہم کا آغاز 22 فروری کو ہوا تھا۔ اس بار ووٹروں کو موسیقی کے استعمال اور پارٹیوں کے انعقاد کے ساتھ ووٹنگ میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں انتخابی مہم کے سلسلے میں ہونے والی تقاریب کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایران میں اس بار الیکشن سے پہلے تہوار کا سا سماں ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی الیکشن سے پہلے ملک کی اخلاقی پولیس یا بسیج ملیشیا زیادہ تر منظر عام سے غائب ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں کون؟

 

ادھر پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''محض ایک سپاہی کے طور پر جو صرف عوام کی خدمت کرتا ہے، میں ایرانی قوم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ آئندہ انتخابات کو انتہائی اہم سمجھیں۔ الیکشن صرف ملک کے کسی مخصوص حصے میں کسی امیدوار کو ووٹ دینے کے بارے میں ہی نہیں ہوتے۔ ان کا اثر عالمی سطح پر بھی پڑتا ہے۔ رائے دہندگان کی زیادہ بڑی تعداد میں شرکت ظاہر کرتی ہے کہ ایران مشکلات کے عین وسط میں بھی عوام کی مرضی اور آواز پر انحصار کرتا ہے۔‘‘

Iran Tehran -  vor den Parlamentswahlen 2024
زیادہ تر ایرانی باشندوں کو الیکشن سے ملک میں سیاسی بہتری کی کوئی امید نہیں ہےتصویر: WANA NEWS AGENCY via REUTERS

بہت سے شہری ووٹنگ میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟

سویڈن کی یونیورسٹی میلاردالین سے وابستہ پروفیسر اور ماہر عمرانیات مہرداد درویش پور نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اسلامی جمہوریہایران  کی قیادت حزب اختلاف کو دبانے اور اسلامی سرپرستی کے نظام کو مستحکم کرنے میں جتنی زیادہ کامیاب رہی، اتنا ہی اس جمہوریہ کا سیاسی نظام اپنے اثر و رسوخ اور اہمیت میں کم ہوتا گیا۔ یوں اسلامی حکمرانی بہت مضبوط ہوتی چلی گئی۔‘‘

ماہر عمرانیات درویش پور نے ایران  کی سیاسی تاریخ کے بارے میں مزید کہا، ''اسلامی جمہوریہ ایران  کی تاریخ میں 1979ء  کے بعد سے ایسے مراحل آتے رہے ہیں، جن میں عوام نے ملکی نظام میں قوانین اور معیارات میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کی اور انتخابی عمل کو احتجاج کے ایک آسان موقع کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا مقصد مذہبی رہنماؤں کو پیچھے دھکیلنا اور جمہوری عناصر کو مضبوط کرنا تھا۔ تاہم اس کا نتیجہ کبھی بھی حقیقی اصلاحات کی شکل میں نہ نکلا کیونکہ ملکی نظام نے کبھی سماجی خواہشات کی پیروی نہیں کی۔‘‘

یہ بات بھی اہم ہے کہ ایران  میں 275 سے زائد ممتاز سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ان پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بائیکاٹ کے ذریعے ملکی انتخابی نظام کی ''قابل رحم‘‘ حالت کی نشاندہی اور ''اصلاحات کے فقدان‘‘ کی مذمت کر رہے ہیں۔

ک م/ م ا، م م (شبنم فان ہائن)