پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے، ترک صدر
14 فروری 2020ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جمعے کے دن اسلام آباد میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ انقرہ حکومت ہر معاملے میں پاکستان کے ساتھ ہے۔ وہ چوتھی مرتبہ پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، جو بذات خود ایک ریکارڈ بن گیا ہے۔
ایردوآن نے کہا، ''دباؤ کے باوجود ہم FATF میں پاکستان کی حمیات کا سلسلہ جاری رکھیں گے‘‘۔ فنانشل ٹاسک ایکشن فورس (FATAF) کا اجلاس آئندہ ہفتے ہونا ہے، جس میں دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے پاکستان کی کوششوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے کہنے پر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ اس لسٹ ميں ان ملکوں کو شامل کيا جاتا ہے، جہاں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی معاونت روکنے کے ليے اقدامات ناکافی ہيں۔
ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان کو مہلت دی گئی تھی کہ وہ اس نے چھ ماہ کے دوران مناسب اور ٹھوس اقدامات نہ کیے تو اسے بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر اس عالمی واچ ڈاگ گروپ نے پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا تو اسے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں کمزور ملکی معیشت کی زبوں حالی کے خطرات زیادہ ہو جائیں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ اس اہم تنظیم میں ترکی ووٹنگ ممبر ہے جبکہ چھتیس ممالک پر مشتمل ایف اے ٹی ایف کے چارٹر کے مطابق کسی بھی ملک کا نام بلیک لسٹ میں نہ ڈالنے کے لیے کم از کم تین ممبر ممالک کی حمایت لازمی ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ اس واچ ڈاگ کے آئندہ اجلاس میں زیادہ سے زیادہ ممالک کی حمایت حاصل کرے تاکہ کسی بُرے نتیجے سے بچا جا سکے۔
ترک صدر ایردوآن نے مزید کہا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کرتے ہیں اور اس معاملے کو ہر عالمی فورم پر اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے برادرانہ تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ان میں مزید بہتری پیدا ہوا۔
ایردوآن نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستانی کوششوں کو بھی سراہا۔ انہوں نے کہا کہ افغان خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے انقرہ حکومت بھی ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایردوآن اپنے دو روزہ دورہ پر جمعرات کو پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے تھے۔ ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات میں مزید بہتری کے علاوہ اقتصادی تعلقات میں وسعت دینا بھی تھا۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے