1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’این ایس اے پر جرمن تحقیقی پینل کی جاسوسی نہیں ہوئی‘

ندیم گِل6 جولائی 2014

امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے جاسوسی کی کارروائیوں سے متعلق جرمنی میں تحقیق کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مبینہ ڈبل ایجنٹ نے ان کی کمیٹی کی جاسوسی نہیں کی۔

https://p.dw.com/p/1CWWa
تصویر: picture-alliance/zumapress

جرمنی میں ایک خفیہ ایجنسی کے ایک اہلکار کو امریکا کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے بارے میں تفتیش کرنے والے پینل کے چیئرمین پیٹرک زینزبرگ کا کہنا ہے کہ مشتبہ جاسوس نے اس تحقیق سے متعلق خفیہ معلومات فروخت نہیں کیں۔ زینزبرگ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے رکن ہیں۔

انہوں نے ہفتے کو ایک انٹرویو میں کہا: ’’فی الحال، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں جن سے این ایس اے کمیٹی کے دستاویزات کی جاسوسی کے بارے میں پتہ چلے۔‘‘

رواں ہفتے جرمنی کی انٹیلیجنس ایجنسی بی این ڈی کے ایک ملازم کو جاسوسی کے الزام پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بی این ڈی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ مشتبہ جاسوس ایجنسی کے ’فارن ڈویلپمنٹ ایریاز‘ ڈویژن سے منسلک تھا اور وہ درحقیقت ایک ایجنٹ نہیں تھا۔

NSA Untersuchungsausschuss 03.07.2014 Patrick Sensburg
این ایس اے کے بارے میں تفتیش کرنے والے جرمن پینل کے چیئرمین پیٹرک زینزبرگ (درمیان میں)تصویر: picture-alliance/dpa

ڈی پی اے نے بی این ڈی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس مشتبہ جاسوس نے 25 ہزار یورو کے عوض ایک نامعلوم امریکی خفیہ ایجنسی کو 218 خفیہ دستاویزات فروخت کیں۔ تاہم بی این ڈی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دستاویزات میں کسی طرح کی حسّاس معلومات شامل نہیں تھیں۔

جرمن اخبار بِلڈ نے اپنی جمعہ چار جولائی کی اشاعت میں بتایا تھا کہ فروخت کی گئی دستاویزات میں سے تین این ایس اے کے بارے میں جاری پارلیمانی تحقیق سے متعلق تھیں۔ بِلڈ کا کہنا تھا کہ مشتبہ جاسوس کو برلن میں امریکی سفارت خانے سے براہ راست احکامات جاری کیے گئے۔

خیال رہے کہ جرمن وزارتِ خارجہ نے جمعے کو وضاحت کے لیے برلن میں تعینات امریکی سفیر جان ایمرسن کو بھی طلب کیا تھا۔ وزارتِ خارجہ کے اسٹیٹ سیکرٹری اشٹیفان اشٹائن لائن نے ایمرسن سے معاملے کی ’فوری وضاحت‘ کی درخواست کی تھی۔

میرکل کے پارلیمانی گروپ کے لیے داخلی امور کے ترجمان اشٹیفان مائیر نے روزنامہ بِلڈ سے بات چیت میں کہا: ’’اگر یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ بی این ڈی کا ایک ملازم برسوں امریکی سفارت خانے کے لیے کام کرتا رہا ہے تو یہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔‘‘

دوسری جانب گرین پارٹی کے ارکان نے اس صورتِ حال کے لیے چانسلر انگیلا میرکل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس جماعت کے داخلہ امور کے ایک پالیسی ماہر فولکربیک کا کہنا ہے: ’’بی این ڈی کی سرگرمیوں کے لیے چانسلر کا دفتر ذمہ دار ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید