ایک دن میں دو لاکھ سے زائد کیسز، جرمنی میں نیا ریکارڈ
27 جنوری 2022جرمنی میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کو پہنچے پورے دو سال ہو گئے ہیں۔اس وسطی یورپی ملک میں کووڈ انیس کا پہلا کیس ستائیس جنوری سن دو ہزار بیس کو باویریا صوبے میں رپورٹ کیا گیا تھا۔
تاہم بری خبر یہ ہے کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی کورونا کی عالمی وبا ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ جمعرات کے روز رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران دو لاکھ سے زائد افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
جرمنی میں وبائی امراض کے روک تھام اور ریسرچ کے اس وفاقی ادارے کے مطابق جرمنی میں اس عالمی وبا کی شروعات کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ کسی ایک دن میں اتنے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں، جس کی بڑی وجہ کووڈ انیس کی تبدیل شدہ قسم اومیکرون ہے، جو انتہائی برق رفتاری سے پھیل رہی ہے۔
ایک ہفتے قبل بدھ کے دن جرمنی بھر میں مجموعی نئی انفیکشنز کی تعداد ستر ہزار سے کم تھی۔ اس وبا میں تیزی سے اضافہ تشویش کی ایک نئی لہر بھی ساتھ لایا ہے۔ جرمنی میں اب تک نو ملین افراد اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔
جرمنی میں اس نئی لہر کی وجہ سے صحت، چائلڈ کیئر اور تعلیمی اداروں پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ کئی لوگوں کے اس وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے متعلقہ محکموں میں اسٹاف کی قلت بھی دیکھی جا رہی ہے۔
پچاس فیصد عوام کو بوسٹر بھی لگ گیا
رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے جمعرات کے دن ہی بتایا ہے کہ جرمنی میں نصف آبادی کو کووڈ انیس کی تیسری ویکسین یعنی بوسٹر لگائے جانے کا سنگ میل عبورکر لیا گیا ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق پچھتر فیصد لوگوں کو کم ازکم ایک خوارک دی جا چکی ہے۔
تاہم دیگر مغربی یورپی ممالک کے مقابلے میں یہ شرح کم ہے۔ فرانس، اٹلی اور اسپین جیسے ملکوں میں بالترتیب اسّی، تراسی اور چھیاسی فیصد لوگ کم ازکم ایک ویکسین لگوا چکے ہیں۔
ویکسین لازمی یا نہیں، بحث جاری
نئے کیسوں میں ہوشربا اضافے کے بیچ بدھ کے دن جرمن پارلیمان میں بحث کی گئی کہ آیا کووڈ ویکسین کو لازمی قرار دے دیا جائے؟ جرمن چانسلر اولاف شولس اٹھارہ برس سے زائد عمر کے افراد کے لیے لازمی ویکسین کے حق میں ہیں لیکن حکمران اتحاد میں شامل تینوں سیاسی جماعتوں کے متعدد ممبران اس بارے میں تقسیم کا شکار ہیں۔
شولس کی اپنی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کچھ ممبران بھی لازمی ویکسین کی قانون سازی پر تحفظات ظاہر کر رہے ہیں۔ ادھر ویکسین اور لاک ڈاؤن مخالف عناصر کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مشرق جرمن صوبوں کے علاوہ اب مغربی صوبوں میں عوامی غم و غصے میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن کے ساتھ ساتھ میونخ اور فرینکفرٹ جیسے کئی بڑے شہروں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
ع ب ، ع ا (خبر رساں ادارے)