باغیوں کی جانب سے مصراتہ کی ’آزادی‘ کا دعویٰ
23 اپریل 2011گزشتہ روز اس بارے میں تازہ پیشرفت یہ ہوئی تھی کہ طرابلس حکومت نے ملکی فوج کو یہ محاصرہ ختم کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق مصراطہ کے نواحی علاقوں سے قذافی کے وفادار قبائلی اب یہ محاذ سنبھال لیں گے۔ مصراتہ میں طبی ذرائع کے مطابق اس پییشرفت کے بعد نئی جھڑپوں میں محض چند گھنٹوں کے اندر اندر دس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔
مصراتہ لیبیا کا شمال مغربی شہر ہے جو دارالحکومت طرابلس سے 210 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ 24 فروری سے اس بندرگاہی شہر پر باغیوں کے کنٹرول کی اطلاعات تھیں جبکہ ملکی فوج نے اس کا محاصرہ کرکے شیلنگ جاری رکھی ہوئی تھی۔ اس دوران مبینہ طور پر سینکڑوں سویلین مارے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو مصراتہ سے بذریعہ ٹیلی فون باغیوں کے ترجمان نے بتایا کہ مصراتہ اب ’آزاد‘ ہوگیا ہے۔ جمال سلام نامی اس ترجمان کا کہنا تھا کہ بعض فوجی اہلکار بھی مارے گئے ہیں جبکہ بچ جانے والے فرار ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ قذافی کی فوج نے یہ شہر چھوڑ دیا ہے تاہم وہ اب بھی بمباری کی پوزیشن میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قذافی کی فورسز نے مصراتہ کے مضافاتی علاقوں سے جانے سے پہلے وہاں جگہ جگہ بم نصب کر دیے ہیں۔ باغیوں کے ترجمان کے مطابق لاشوں کے نیچے، سڑکوں کے کنارے حتیٰ کہ بعض گھروں میں بھی بم رکھ دیے گئے ہیں۔
دریں اثناء امریکی سینیٹر جان مک کین نے لیبیا کے باغیوں کو یقین دلایا ہے کہ قذافی کی حکومت کے خاتمے کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔ باغیوں کے گڑھ بن غازی کے دورے کے موقع پر مک کین کا کہنا تھا کہ اس تعاون میں زمینی دستوں کا آپشن شامل نہیں ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے لیبیا میں نو فلائی زون کے قیام اور شہریوں کی سلامتی کی ذمہ داری شروع میں امریکہ نے اٹھائی تھی لیکن اس کے بعد گزشتہ تین ہفتوں سے اس آپریشن کی کمان نیٹو کے پاس ہے۔
دارالحکومت طرابلس کے نواحی علاقے میں نیٹو کی تازہ فضائی بمباری میں تین افراد مارے گئے ہیں۔ یہ ہلاکتیں ہفتہ کو اس وقت ہوئیں جب نیٹو کے جنگی طیاروں نے قذافی کی سکیورٹی فورسز کے متعدد بنکر کو نشانہ بنایا۔ اس علاقے میں قذافی کے حامیوں نے مغربی ممالک کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
رپورٹ شادی خان سیف
ادارت مقبول ملک