برازیل کے صدر کا دورہ ایران، احمدی نژاد سے ملاقات
16 مئی 2010برازیل کے صدر لولاڈی سلوا سے ملاقات کے بعد ایرانی صدر احمدی نژاد کی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا گیا ہے، جس سے مغربی ممالک کی جانب سے اس ملاقات کو پابندیوں سے بچنے کے لئے آخری موقع قرار دیے جانے کے مؤقف کی نفی ہوتی ہے۔
احمدی نژاد کی ویب سائٹ پر بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ، اقتصادیات اور سیاست پر اثر رکھنے والے بعض ممالک دیگر ریاستوں کی ترقی نہیں چاہتے اور یہی سچ ہے۔ احمدی نژاد کا کہنا ہے کہ مل کر کام کرنے سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور ایسی غیرمنصفانہ شرائط کو دُور کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایران کے حقوق اور مؤقف کے حق میں برازیل کے صدر کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
قبل ازیں روس اور امریکہ نے کہا تھا کہ برازیل کے رہنما کا دورہ ایران، تہران حکام کو نئی پابندیوں سے بچنے کا آخری موقع دے سکتا ہے۔ برازیل کے صدر ماسکو سے تہران پہنچے۔ وہاں انہوں نے روسی صدر دیمیتری میدویدیف سے ملاقات کی۔ تہران روانگی سے قبل انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ وہ ایرانی صدر کو مغرب کے ساتھ مصالحت کے لئے تیار کرنے پر کامیاب ہو جائیں گے۔
خیال رہے کہ لولا ڈی سلوا ماضی میں تہران کی جوہری سرگرمیوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف رہا ہے کہ ایران بھی جوہری توانائی کے حصول کا حق رکھتا ہے جبکہ اس پر پابندیاں غیرمؤثر ہوں گی اور ان سے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
انہوں نے اتوار کو تہران میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات گی۔ اس موقع پر ایرانی رہنما نے برازیل کے صدر کے دورہ تہران پر مغربی ممالک کے مؤقف کو ایک ’شور‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی سربراہی میں ایسے ممالک آزاد ریاستوں کے درمیان تعاون پر ناخوش ہیں۔
برازیل اور ترکی تہران حکام کو اقوام متحدہ کی سربراہی میں جوہری ایندھن کے تبادلے کی مغربی پیش کش پر دوبارہ غور کے لئے تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کے مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین اقوام متحدہ کے ذریعے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کوششوں میں جرمنی بھی ان کے ساتھ شامل ہے۔ ان ممالک کا مؤقف ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے ذریعے ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تاہم تہران حکام کا کہنا ہے کہ ان کا جوہری منصوبہ پرامن مقاصد کے لئے ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ