برطانوی اماموں کا اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فتویٰ
4 ستمبر 2014برطانوی امام دہشت گرد ملیشیا گروپ اسلامک اسٹیٹ کی مذمت اس سے زیادہ واضح الفاظ میں نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے اسلامک اسٹیٹ کو انتہا پسند تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا طرز عمل ملحدانہ ہے اور اسلام کی رو سے اس قسم کی تنظیم کی حمایت یا خود کو اس کے ساتھ وابستہ کرنا حرام عمل ہے۔ اس کے علاوہ اس فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں آباد مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ آئی ایس کے زہریلے نظریات کی کھُل کر مخالفت کریں۔ خاص طور سے ان نظریات کے برطانیہ میں پھیلاؤ کے امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی مذمت لازمی ہے۔
لندن میں ’ انسداد انتہا پسندی‘ سے متعلق قائم ایک تھنک ٹینک ’ کویلیم فاؤنڈیشن‘ میں الہیات سے متعلق امور کے شعبے کے ڈائریکٹر، برطانیہ میں قائم اسلامی مشاورتی کونسل کے بانی اور لائیسسٹر اور مانچیسٹر کی مرکزی مساجد کے اماموں کے ساتھ مل کر تیار کیے جانے والے اس فتوے کے مصنف اُثامہ حسن ہیں۔ وہ کہتے ہیں،" اسلامک اسٹیٹ مذہبی نظریات کا سہارا لے کر انتہا پسندی پھیلا رہا ہے۔ اسے سیاسی اسلام کی سخت گیر شکل کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح اسلامی ریاست کے قیام کے لیے تشدد کے استعمال کی وکالت کی جاتی ہے اور یہ گروپ دین کے نام پر لڑنے والے جنگجوؤں کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ ایسے جنگجو بھی ان کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو شاید خود بھی صحیح معنوں میں دین پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اس طرح مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے نتھی ہو جاتے ہیں اور طاقت کے حصول کی جنگ شروع ہو جاتی ہے" ۔
آئی ایس پر سنگین الزامات
فتوے میں کہا گیا ہے، " صحافیوں، شہریوں اور اماموں کا قتل کرتے ہیں۔ جو ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے مخالفین کی خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیتے ہیں۔ امام کے فتوے کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو جینیوا کنونشن اور غلامی کے خلاف طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
فتوے کے مصنف اُثامہ حسن کے بقول،" شعیہ مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے خلاف عقوبت اور ان کا قتل اسلامی تعلیمات اور اسلامی تصور رواداری کے بالکل متضاد ہے۔ یہ رواج ترکوں کے عثمانیہ دور اور مغلوں کے دور میں عام تھا" ۔ جولائی کے اواخر میں قاہرہ کی جامع الازہر اور سعودی عرب کے ماہرین الہیات نے بھی آئی ایس کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا۔
فتوے کے ممکنہ اثرات
جرمن شہر ہیمبرگ میں قائم گیگا انسٹیٹیوٹ سے منسلک امور مشرق وسطیٰ کے ماہر اشٹیفن روزینی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے مسلم اسکالرز اور اماموں کی طرف سے جاری کیے جانے والے فتوے کے اثرات مختلف نوعیت کے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں" اسلامک اسٹیٹ آئی ایس کے جنگجو اور حامی فتوے سے کوئی اثر نہیں لیں گے۔ پہلے ہی سے اُن کے خیال میں وہ تمام مسلمان جو اُن کی خلافت اور خلیفہ کو خراج عقیدت پیش نہیں کرتے، وہ ملحد اور عقیدے سے خارج ہیں۔ جن اماموں نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے انہیں وہ جائز اتھارٹی سمجھتے ہی نہیں" ۔
تاہم جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ ایسے مسلمان جو آئی ایس کے ساتھ سیاسی ہمدردی رکھتے ہیں وہ کم از کم اس انتہاپسند گروپ کی دینی حیثیت کے بارے میں بحث کا حصہ بن سکتے ہیں اور یہ بحث ان کی سوچ پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اس گروپ کا مذہبی جواز ایک سوال بن سکتا ہے۔ آخر میں سُنی مسلم برادری اور سنی علماء میں بھی اسلامک اسٹیٹ کے مذہبی جواز اور مستند ہونے کے بارے میں پایا جانے والا سحر ٹوٹے گا۔