1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں انتخابی مہم اور الزامات میں تیزی

3 مئی 2010

برطانیہ میں چھ مئی جمعرات کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل اہم سیاسی رہنماؤں نے اپنی تقریروں اور بیانات میں ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنے شروع کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/NCoA
لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما نِک کلیگتصویر: AP

رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت ٹوری پارٹی کو حاصل عوامی تائید میں اضافے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

David Cameron
اپوزیشن رہنما ڈیوڈ کیمرونتصویر: AP

لندن میں سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ہفتے ہونے والے عام الیکشن میں یہ رجحان قدرے واضح ہے کہ برطانیہ میں اب لیبر پارٹی کا تیرہ سالہ دورِ اقتدار ختم ہو جائے گا، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مرکز سے دائیں طرف جھکاؤ رکھنے والی اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت بظاہر اتنی زیادہ عوامی تائید حاصل نہیں کر سکے گی کہ اسے ویسٹ منسٹر کی نئی پارلیمان میں اکثریت بھی مل جائے۔

اگر رائے عامہ کے اب تک کے جائزوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کافی حد تک یقینی بات ہے کہ ٹونی بلیئر کی قیادت میں 1997 میں بہت بڑی اکثریت سے انتخابی کامیابی حاصل کرنے والی لیبر پارٹی چھ مئی کے روز رائے دہی کے نتیجے میں قدرے چھوٹی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی پیچھے رہ جائے گی، اور غالبا تیسرے نمبر پر رہے گی۔

اس ہفتے ہونے والے الیکشن سے پہلے کے آخری دنوں میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اب ایک دوسرے پر اس طرح کی تنقید پر بھی اتر آئے ہیں، جو اب تک دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

پہلے لیبر پارٹی، ٹوری پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کے مرکزی رہنما عوام سے بڑے خوشنما سیاسی وعدے کرتے ہوئے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے انتخابی پروگراموں کا ذکر کرتے تھے۔ تب سیاسی مخالفین پر اگر تنقید کی بھی جاتی تھی، تو اس طرح کہ اس میں اپنے حریف پر کسی ذاتی حملے کے پہلو کو محسوس نہ کیا جا سکے۔

اب لیکن یہ سیاسی احتیاط پسندی ہر حال میں انتخابی کامیابی کی خواہش کی بھینٹ چڑھ گئی ہے، اور حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ وہ تیسری بڑی سیاسی طاقت بھی اس عمل میں شامل ہو گئی ہے، جو چھ مئی کے بعد کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں آ جانے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔

برطانوی سیاستدان ان دنوں ایک دوسرے پر کس طرح کے زبانی حملے کرنے لگے ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن رہنما ڈیوڈ کیمرون کے بقول لیبر پارٹی کے رہنما اور موجودہ وزیر اعظم گورڈن براؤن کی شخصیت سیاسی طور پر سکڑ چکی ہے۔ خود گورڈن براؤن نے کہا کہ لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما نِک کلیگ ایسے لگتے ہیں جیسے وہ ’ٹیلی وژن کے کسی گیم شو کے میزبان‘ ہوں۔

اتوار کے روز لندن کے مختلف حصوں میں سیاسی تقریبات اور انتخابی مہم کے دوران ملاقاتوں کے لئے کئے جانے والے اپنے ایک دورے کے موقع پر لیبر پارٹی کے رہنما اور دوبارہ وزیر اعظم بننے کے خواہش مند گورڈن براؤن نے کہا: ’’میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ لیکن یہ جنگ میں اپنے لئے نہیں بلکہ برطانوی عوام کے لئے لڑ رہا ہوں۔‘‘

NO FLASH Gordon Brown
برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤنتصویر: AP

لیبر اور ٹوری پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین پر زبانی حملوں کے بعد لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما نے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ Libdems کے رہنما نِک کلیگ نے برطانوی اخبار Independent کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اس ہفتے ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں اگر قدامت پسند اکیلے ہی اپنی ایک اکثریتی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے، تو پھر اقتدار دراصل چند افراد کے ایک ایسے گروہ کے ہاتھ میں آ جائے گا، جس کے اپنے مخصوص مفادات ہیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: ندیم گِل