برطانیہ کا شہر نیو کاسل: نوجوان لڑکیوں کے ’ریپ کی پارٹیاں‘
9 اگست 2017برطانوی دارالحکومت لندن سے بدھ نو اگست کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی پراسیکیوٹرز نے بتایا کہ نیو کاسل شہر میں جنسی نوعیت کے مختلف جرائم کے سلسلے میں ایک درجن سے زائد مرد مجرموں کو سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں۔
اسی سلسلے میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کئی کارکنوں نے ان خبروں پر شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے کہ ایسے مجرموں تک پہنچنے سے قبل ان سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے مقامی پولیس نے جنسی زیادتی کے جرم میں سزا یافتہ ایک مجرم کو باقاعدہ پیسے بھی دیے تا کہ وہ پولیس کو ’اندر کی معلومات‘ مہیا کر سکے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ اس سزا یافتہ مجرم کو پولیس نے مالی ادائیگی اس لیے کی کہ وہ ان پارٹیوں کے بارے میں تفتیشی اہلکاروں کو آگاہ کرے، جن میں نوجوان عورتوں اور لڑکیوں سے جنسی زیادتیاں کی جاتی تھیں۔
جن 12 سے زائد مردوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں، ان کی عمریں 30 اور 49 برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ ان افراد کے خلاف نیو کاسل کی کراؤن کورٹ میں مقدمات کے ایک پورے سلسلے کے دوران یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ وہ جنسی زیادتیوں، جنسی حملوں اور منشیات کے استعمال سے متعلق کئی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
پنچایت کا ظالمانہ فیصلہ، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کیا مسئلے کا حل ہے؟
نجی اسکول میں خواتین اور ’طالبات کی فحش ویڈیوز‘ کا اسکینڈل
چرچ کے کوائر میں بچوں کے ساتھ زیادتی
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنسی جرائم کی شکار ایسی نوجوان عورتوں اور لڑکیوں کی عمریں زیادہ تر 15 سے لے کر 22 اور 23 برس تک کے درمیان تھیں۔ برٹش پراسیکیوٹرز کے مطابق منظم انداز میں اہتمام کردہ ان جرائم کی کوئی بھی تفصیلات اب سے پہلے اس لیے منظر عام پر نہیں آ سکی تھیں کہ اس پوری قانونی کارروائی اور مقدمات کی سماعت تک کی رپورٹنگ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
اے پی نے لکھا ہے کہ جس قدر پریشان کن یہ جرائم ہیں اور ان کے مرتکب افراد کو سزائیں سنائی جانا جتنی بڑی خبر ہے، ان پر ممکنہ طور پر یہ انکشاف غالب آتا دکھائی دیتا ہے کہ ان جرائم کی تحقیقات میں مدد کے لیے نیو کاسل میں نورتھمبریا کی پولیس نے ایک ریپسٹ کی طرف سے تعاون پر اسے باقاعدہ مالی ادائیگی کی۔
اس سلسلے میں برطانیہ میں بچوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کے انسداد کی قومی تنظیم کے ایک عہدیدار جان براؤن نے کہا کہ انہیں پولیس کی اس حکمت عملی سے ’گھن آتی ہے‘ جو اس نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنائی۔