پنچایت کا فیصلہ، سپریم کورٹ کا نوٹس کیا مسئلے کا حل ہے؟
27 جولائی 2017انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ملتان کی مقامی پولیس کے ایک افسر نے ڈوئچے ویلے کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’چوبیس جولائی کو ایک خاتون نے پولیس کو بتایا کہ اس کی بیٹی شمیم کے ساتھ عمر نامی ایک شخص نے زبردستی جنسی زیادتی کی۔ جس کو دو افراد نے موقع پر ہی پکڑ لیا تھا۔ بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ عمرکی ایک رشتہ دار عذرا کے ساتھ بھی زنا بالجبر کیا جائے۔ لیکن بعد میں عذرا کے گھر والوں نے اس کا میڈیکل کرا کے ہمارے خلاف مقدمہ کر دیا ہے۔ لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ شمیم کا میڈیکل کرا کے عمر کے گھر والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔‘‘
اس افسر کا کہنا تھا، ’’دونوں خاندان آپس میں رشتے دار بھی ہیں اور اپنی مرضی سے انہوں نے پنچایت بلائی تھی، جس میں کچھ مقامی با اثر افراد بھی شریک تھے۔ پولیس نے تقریباﹰ بیس افراد کو گرفتار کر لیا ہے اور مذید تفتیش ہورہی ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعداس واقعے پر پورے ملک کے سماجی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے۔ کئی حلقوں نے کورٹ کے اس اقدام کو سراہا لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کچھ ارکان کے خیال میں ازخود نوٹس مسئلے کا حل نہیں۔
اس واقعے پر اپنی رائے دیتے ہوئے معروف سماجی کارکن فرزانہ باری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کی وجہ سے معاملات بہتر ہونے کی بجائے اور خراب ہو جاتے ہیں۔ سول سوسائٹی مطمئن ہو جاتی ہے کہ کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے اور پولیس و انتظامیہ عدالت میں مختلف بہانے بنا کر مقدمات کو طول دیتے رہتے ہیں، جس سے فائدہ یقینا ًایسے افراد کو ہوتا جو اس طرح کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوہستان میں لڑکیوں کے قتل کا بھی ازخود نوٹس لیا تھ، ’’لیکن مجھے بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عدالتیں مقدمات کو حتمی نتیجے تک نہیں پہنچاتیں۔کوہستان کے مقدمہ میں ملزمان کے وکیل نے جوفنگر پرنٹس پیش کیے تھے ان کو سول جج نے بھی جعلی قرار دے دیا ہے اور نادرا نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی۔ پھر عدالت نے حکم دیا کہ ان لڑکیوں کو پیش کیا جائے لیکن لڑکیاں زندہ ہوں گی تو پیش کیا جائے گا نا۔ اب ملزمان کی طرف سے بہانے بنائیں جارہے ہیں اور ڈھائی مہینے سے اس مقدمہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مختاراں مائی کا کیس بھی سب کے سامنے ہے، ’’مائی کے مقدمے میں تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا، بس ایک کو سزا ہوئی۔ اگر مائی اور کوہستان کے مقدمات میں ملزمان کو سزا ہوتی تو شاید آج یہ واقعہ نہ ہوتا۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے ہمیں قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا اور سماج کو اپنی اجتماعی سوچ اور رویوں میں تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔‘‘
معروف سماجی کارکن مختاراں مائی نے جو خود بھی پنچایت کے ایک ایسے ہی فیصلے کا شکار بن چکی ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس طرح کے واقعات اس لیے ہوتے ہیں کہ مجرموں کو سزا نہیں ملتی، جس سے سماج دشمن عناصر کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ پنچایت لگانے والے با اثر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ ان کی جیب میں ہوتی ہے۔ پولیس ان کی مرضی کی ایف آئی آر کاٹتی ہے اور تفتیش میں بھی ان کے احکامات پر عمل کرتی ہے، تو ایسی صورت میں مظلوموں کو انصاف کیسے ملے گا؟ یہاں تو جس کی جیب میں پیسہ ہے وہ ہی طاقت ور ہے۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، سندھ چیپٹر کے نائب چیئرمین اسد بٹ نے کہا، ’’مجھے تو اس بات سے حوصلہ ملتا ہے کہ کورٹ نوٹس لے رہی ہے۔ اصل مسئلہ پولیس اور نچلے لیول کی عدلیہ کی اصلاح کا ہے، جہاں سپاہی سے لے کر مجسٹریٹ تک سب رشوت لے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اگر نوٹس لے بھی لے تو ایف آئی آر تو پولیس نے کاٹنی ہے۔ تفتیش تو ان ہی کو کرنی ہے۔ اس لیے ان کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جب تک ان کی اصلاح نہیں ہوگی، اس طرح کے واقعات میں کمی نہیں ہوگی۔ میرے خیال میں اعلیٰ عدلیہ میں کام پھر بھی بہتر ہو رہا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پنچایتیں اس لیے موجود ہیں کیونکہ ہمارے عدالتی نظام میں مقدمات بہت دیر میں حل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ غریب آدمی وکیلوں کی فیسیں اور دوسرے اخراجات کی وجہ سے بھی عدالت جاتے ہوئے گھبراتا ہے۔جب کبھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو متاثرہ لڑکی کے خاندان پر برادری اور قبیلہ بھی دباؤ ڈالتا ہے۔ تو جب تک ان سارے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا، اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہوگی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عدالت اس مقدمے کو منطقی انجام تک لے کر جائے اور مجرموں کو سزائیں دیں، ’’آپ کائنات سومرو کے کیس کو دیکھ لیں۔ اس مقدمے میں ملوث مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔‘‘