برقعے اور نقاب پر قانونی پابندی: ڈنمارک میں بھی قانون منظور
31 مئی 2018اسکینڈے نیویا کی بادشاہت ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن سے جمعرات اکتیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس قانون سازی کے لیے پارلیمانی مسودہ مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی موجودہ مخلوط حکومت نے پیش کیا تھا۔
اس مسودے پر جمعرات کے روز ہونے والی رائے شماری میں کوپن ہیگن میں ملکی پارلیمنٹ کے 75 ارکان نے اس کی حمایت میں رائے دی اور 30 نے مخالفت کی۔ کل 179 رکنی پارلیمان کے 74 ارکان نے رائے شماری میں حصہ ہی نہ لیا۔
اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے اور آئندہ بھی ملک میں مسلم خواتین اپنے ہیڈ اسکارف، سکھ مرد اپنی پگڑی اور یہودی باشندے اپنے سروں پر روایتی یہودی ٹوپی کِپّا پہن سکیں گے۔
ڈینش حکومت کے اس موقف کے برعکس عوامی سطح پر اس قانون سازی کو ’برقعہ بین‘ یعنی ’برقعے پر پابندی‘ کا قانون ہی کہا جا رہا ہے۔ اسی لیے اس پارلیمانی فیصلے کو ایسی قانون سازی قرار دیا جا رہا ہے، جس کا ہدف وہ لباس ہو گا، جو عام طور پر قدامت پسند مسلم خواتین گھروں سے باہر پہنتی ہیں۔
اس قانون سازی کے بعد ڈنمارک میں کسی کو بھی عوامی مقامات پر پورا جسم ڈھانپ دینے والا برقعہ یا پورے چہرے کا نقاب استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ڈنمارک میں بہت تھوڑی مسلم خواتین ہی برقعہ یا پورے چہرے کا نقاب استعمال کرتی ہیں۔
یہ قانون یکم اگست سے نافذالعمل ہو جائے گا۔ اس بارے میں ڈینشن وزیر قانون سوئرن پاپے پولسن نے کہا کہ آیا کوئی فرد اس نئے قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے، یہ فیصلہ مقامی پولیس اہلکار اپنی ’کامن سینس‘ کے ذریعے کر سکیں گے۔
اس قانون کے تحت عام لوگوں کو، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، یہ اجازت تو ہو گی کہ وہ کسی واضح مقصد کے تحت اس وقت اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ سکیں، جب ایسا کرنا مجبوری ہو یا قانونی طور پر لازمی۔ مثلاﹰ ایسا انتہائی شدید موسمی حالات میں یا ڈینش قانون کے تحت موٹر سائیکل وغیر چلاتے ہوئے کیا جا سکے گا۔
جو افراد پہلی مرتبہ اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے، انہیں ایک ہزار کرونے تک جرمانہ کیا جا سکے گا، جو 156 امریکی ڈالر کے برابر بنتا ہے۔ بار بار اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو 10 ہزار کرونے یا 1600 امریکی ڈالر کے برابر تک جرمانہ کرنے کے علاوہ چھ ماہ تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔
اس کے علاوہ آئندہ اگر کسی فرد کو کسی دوسرے کو زبردستی یا دھمکی دے کر کوئی ایسا لباس یا برقعہ وغیرہ پہننے پر مجبور کرتے ہوئے پایا گیا، جس سے دوسرے فرد کا پورا چہرہ چھپ جاتا ہو، تو ایسے کسی بھی ’مجرم‘ کو جرمانہ کرنے کے علاوہ دو سال تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔
شمالی یورپی ملک ڈنمارک سے قبل کئی دیگر یورپی ممالک بھی اسی طرح کی قانون سازی پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ان ممالک میں آسٹریا، فرانس اور بیلجیم شامل ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ڈنمارک، آسٹریا، فرانس اور بیلجیم سبھی جرمنی کی ہمسایہ ریاستیں ہیں لیکن جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، تاحال ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔
م م / ع ت / اے پی