بشارالاسد کی تقریر پر امریکہ کی برہمی
11 جنوری 2012امریکہ نے شام کے صدر بشارالاسد کی جانب سے منگل کی طویل تقریر پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ گزشتہ دَس ماہ سے جاری عوام پر ہلاکت خیز دباؤ سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی سیاسی اصلاحات سامنے آئی ہیں۔
بشار الاسد نے منگل کو دمشق یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں میں تقریباﹰ دو گھنٹے جاری رہنے والی تقریر میں کہا کہ شام کو درپیش حالات کے ذمہ دار دہشت گرد اور تخریب کار ہیں اور ان کے ساتھ ’آہنی ہاتھ‘ سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے عہدہ چھوڑنے سے بھی انکار کیا۔ گزشتہ برس جون کے بعد سے ان کا یہ پہلا خطاب تھا۔
دوسری جانب اپنی مخالفت کے باوجود امریکہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسد کی اقتدار سے بے دخلی یا شام کے عوام کے خلاف تشدد رکوانے کے لیے کسی کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا: ’’اسد نے غیرملکی سازش پر الزام دھر دیا ہے جو شام کے حالات کے تناظر میں اس قدر وسیع ہے کہ اب اس میں عرب لیگ، شام کی اپوزیشن کا بڑا حصہ اور پوری عالمی برادری شامل ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’وہ سب پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں لیکن اپنی بات نہیں کرتے، اور شام میں تشدد پر اپنی ذمہ داری سے وہ جارحانہ انداز میں انکاری دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
اسد کی اس تقریر پر ردِ عمل میں فرانس کے وزیر خارجہ الاں ژوپے نے کہا کہ اسد ’حقیقت سے دُور‘ ہیں۔ انہوں نے شام کے صدر کو تشدد کو ہوا دینے کا مرتکب قرار دیا۔
اُدھر اقوام متحدہ میں جرمنی نے یورپ کے اس مطالبے کو آگے بڑھایا ہے کہ اسد حکومت کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی مذمت کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد پر ’سنجیدہ مذاکرات‘ کیے جائیں۔ اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سفیر Peter Wittig نے اس حوالے سے روس کے مؤقف کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی