بلوچستان کے متاثرین سیلاب ایران ہجرت کر سکتے ہیں، اقوام متحدہ
3 ستمبر 2010یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں نمائندے منگیشا کبیدے کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ بلوچستان میں متاثرین سیلاب کو جتنی بری حالت میں دیکھا اس کی مثال نہیں ملتی۔کبیدے کے مطابق ’متاثرین کے کیمپوں میں غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور اس گندگی میں ہر جانب مکھیاں اڑ رہی ہیں جبکہ بچے جلِدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔‘
یو این ایچ سی آر کے اسلام آباد میں ایک ترجمان قیصر آفریدی کے مطابق ان کا ادارہ بلوچستان میں امدادی کاموں کو تیز کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن بقول ترجمان کے اس وقت بلوچستان میں بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں درکار ہیں، جو سب کو مل کر کرنا ہوں گی۔
قیصر آفریدی نے کہا، ’تقریباً ایک ملین لوگوں کو براہ راست امداد کی ضرورت ہے۔ ان میں سے چھ لاکھ افراد سندھ سے نقل مکانی کر کے آئے ہوئے ہیں جبکہ چار لاکھ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اس کے علاوہ مزید سات لاکھ افراد بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں تقریباﹰ دو ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں۔‘
قیصر آفریدی نے ذرائع ابلاغ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا صرف سیلابی ریلے کے بہائو کا پیچھا کرتا نظر آ رہا ہے اور بلوچستان کے ان علاقوں پر کم توجہ دی گئی ہے، جہاں 22 جولائی کو تباہ کن مون سون بارشوں اور سیلاب کا آغاز ہو ا تھا۔
دوسری جانب بلوچستان کے علاقے لور الائی سے قومی اسمبلی کے رکن اسرار ترین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے متاثرین پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی ۔ انہوں نے کہا، ’کسی نے بھی یہاں آنے کی زحمت گوارا نہیں کی صرف وزیراعلیٰ آئے اور ڈویژنل آفس میں بریفنگ لے کر چلے گئے ہیں ۔ اپنی مدد آپ کے تحت یا فوج کی طرف سے بحالی کے کام ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوایف سی بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے جبکہ حکومتی سطح پر کوئی امدادی کام نہیں ہوا۔ فوج اور ایف سی کا ریلیف آپریشن میں کردار قابل ستائش ہے کیونکہ ان کے ذریعے وہاں پھنسے ہوئے لوگوں کو کم از کم خوراک تو پہنچائی جا رہی ہے۔‘
ادھر منگیشاکبیدے کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر بلوچستان میں امدادی سرگرمیوں میں تیزی نہ لائی گئی تو لاکھوں افراد ایران ہجرت کر جائیں گے۔انہوں نے کہا، ’یہ امر ہمارے لئے قابل افسوس ہو گا اگر ہجرت کرنے والے لوگوں کو ا ن کے اپنے ملک میں امداد فراہم نہیں کی جا سکی۔’
خیال رہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دو مرتبہ بلوچستان کا مختصر دورہ کیا جبکہ صدر آصف علی زرداری نے ایک بار بھی اس آفت زدہ صوبے کا رخ نہیں کیا۔ مبصرین کاکہنا ہے کہ اگر حکومت نے بلوچستان کے متاثرین سیلاب پر توجہ مرکوز نہ کی تو اسے قو م پرستوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ صوبے میں موجود وفاق مخالف قوتیں بھی اس صورتحال کا فا ئدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: ندیم گِل