بلوچستان: گوادر میں بلوچ قومی اجتماع، قومی شاہراہیں بند
28 جولائی 2024پاکستانی صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 'بلوچی راجی مچی‘ یا 'بلوچ قومی اجتماع' کا اہتمام کرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک پھیلایا جائے گا۔ بلوچ قومی اجتماع کے موقع پر گوادر اور ملحقہ علاقوں میں کرفیو کا سماں رہا اور شہر کو چاروں اطراف سے سکیورٹی فورسز نے گھیرے رکھا۔
قومی اجتماع میں شرکت کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر قائدین پہلے ہی گوادر پہنچ گئے تھے۔
"احتجاج ایک آئینی حق ہے"
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچ قومی تحریک کو ثبوتاژ کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پراتر آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "احتجاج ہمارا ایک آئینی حق ہے۔ ہم انصاف کے لیے نکلے ہیں اور اپنے حقوق حاصل کر کے رہیں گے۔"
ڈاکٹر ماہ رنگ کے مطابق بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باعث لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوچکے ہیں۔ "آج گوادر میں اس بڑے اجتماع نے ثابت کیا ہے کہ بلوچ اپنے حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے گوادر میں سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر بلوچ قومی اجتماع کو ناکام بنانے کی کوشش کی جو کہ کامیاب نہ ہوسکی۔ ماہ رنگ کے بقول، "بلوچ قومی تحریک کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست ہوش کے ناخن لے اور بلوچستان میں جبر و بربریت کا خاتمہ کیا جائے۔ "
بلوچ قومی اجتماع سے قبائلی عمائدین سمیت مختلف دیگر قوم پرست سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی خطاب کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حقیقی قیادت کو نظرانداز کر کے عوامی مفاد کے برعکس من پسند غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں جس پر وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ مقررین نے مزید کہا، "حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے بلوچ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا جارہا ہے مگرمتاثرین کو کوئی انصاف نہیں مل رہا۔"
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں قومی شاہراہیں بند
گوادر میں قومی اجتماع میں قافلوں کی شکل میں ہزاروں دیگر لوگ بھی شرکت کرنا چاہتے تھے مگر انہیں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کی طرف سے مختلف قومی شاہراہوں پر زبردستی روک دیا گیا۔ آج صوبے بھر میں تمام قومی شاہراہیں احتجاج کی وجہ سے بند رہیں۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کہتے ہیں کہ گوادر میں 'بلوچ راجی مچی' میں شہریوں کو شرکت سے روکنا غیر جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "صوبے کی جن شاہراہوں کو حکومتی سطح پر بند کیا گیا ہے انہیں فی الفور کھول دیا جائے تاکہ لوگوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ حکومت سیاسی احتجاج کے حق کو تسلیم نہ کرکے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کر رہی ہے ۔"
ڈاکڑ مالک بلوچ کہتے ہیں کہ پرامن عوامی احتجاج کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے پیدا ہونے والی تمام تر صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے بقول، "غیر سنجیدہ اور متنازعہ اقدامات سے بلوچستان میں قومی اداروں اور عوام کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔"
بلوچ قومی اجتماع میں شرکت سے لوگوں کو کیوں روکا گیا؟
بلوچستان کی صوبائی حکومت کہتی ہے کے گوادر میں جلسے کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کو کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا تھا اسی لیے دیگر علاقوں سے لوگوں کو وہاں جانے سے روک دیا گیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گوادر کی حساسیت کی وجہ سے وہاں جلسے کی اجازت مقامی انتطامیہ نے نہیں دی تھی۔ ان کے بقول، "حکومت قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو نہیں دے سکتی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی پہلے ہی کام کر رہی ہے۔"
علاوہ ازیں قومی شاہراہوں پر احتجاج کے دوران بعض مشتعل افراد نے سکیورٹی فورسز پر پھتراؤ بھی کیا اور جھڑپوں کے بعد مظاہرین وہاں دھرنوں پر بیٹھ گئے جس کی وجہ سے ان شاہراہوں پر ہزاروں گاڑیاں پھنس گئیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ مستونگ، کند ملیر، نوشکی، خضدار اور بعض دیگر مقامات پر دھرنا مظاہرین پر فائرنگ بھی ہوئی ہے جس کے باعث متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔