بندروں اور انسانوں کے مشترکہ اجداد، نئی تحقیق
16 جولائی 2010فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ماہرین کو کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے مغربی علاقے سے جانوروں کی ایک نامعلوم قسم کی ایک ایسی کھوپڑی ملی تھی، جس کے تفصیلی مطالعے سے پتہ یہ چلا کہ کروڑوں سال پہلے بندروں سے انسانوں تک کا نسلی ارتقائی سفر کس طرح مکمل ہوا تھا۔
سائنسی اصطلاح میں بندروں اور انسانوں کی حیوانی نسلوں پر مشتمل مشترکہ گروپ کو ہومینائڈز (Hominoids) کہا جاتا ہے۔ حیاتیاتی ارتقاء کے ماہرین کا کچھ عرصہ پہلے تک خیال یہ تھا کہ ہومینائڈز کا وجود کم ازکم بھی 30 ملین سے لے کر 35 ملین سال پہلے ناپید ہو گیا تھا۔ لیکن نئی تحقیق کی روشنی میں ایسا محض 28 اور 24 ملین سال قبل ہوا تھا۔
معروف سائنسی تحقیقی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے ملنے والی جانوروں کی ایک تب تک نامعلوم قسم کی جزوی کھوپڑی کے جینیاتی مطالعے سے پہلی مرتبہ یہ سمجھنا بھی ممکن ہو گیا کہ حیوانوں کی ’اولڈ ورلڈ مونکی‘ نامی قسم کو کس دور میں کس رفتار سے نسلی ارتقاء کے عمل سے گزرنا پڑا تھا۔
اس تحقیقی منصوبے کی قیادت کرنے والے امریکہ کی مشیگن یونورسٹی کے ایک پروفیسر ولیم سینڈرز کا کہنا ہے کہ بندروں اور انسانوں کے مشترکہ اجداد کے ناپید ہو جانے کے عرصے سے متعلق نئے عصری شواہد یہ تو واضح کر دیتے ہیں کہ ان دونوں طرح کے حیوانوں کے اپنے اپنے مخصوص اجداد کا نسلی وجود کس دور میں ممکن ہوا تھا۔ تاہم یہ دریافت اہم ہونے کے باوجود اس حقیقت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی کہ سائنسدانوں کے بقول نسل انسانی کی ابتداء کیسے ہوئی تھی۔
ماہرین نے سعودی عرب سے ملنے والی قدیم حیوانی کھوپڑی کا مطالعہ کر کے جانوروں کی تب تک نامعلوم اس نسل کو سعدانیئس (Saadanius) کا نام دیا ہے۔ یہ حیوانی کھوپڑی گزشتہ برس مشیگن یونیورسٹی کے ایک محقق کو سعودی عرب میں ارضیاتی سروے کے محکمے کی ایک ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے الحجاز نامی صوبے سے ملی تھی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف توقیر