’نائن الیون‘ لیکن ’ڈھاکا حکومت مسلسل انکار کی کیفیت میں‘
3 جولائی 2016بنگلہ دیش میں گزشتہ دو برسوں سے جہادیوں نے درجنوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ متاثرین میں زیادہ تر بلاگرز، ہندو، ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اور آزاد خیال تعلیمی ماہرین تھے۔
اگرچہ بنگلہ دیش میں پنپتی ہوئی اس انتہا پسندی نے پریس کی کچھ توجہ حاصل کی لیکن اب ڈھاکا کے معروف کیفے میں ہونے والے حالیہ حملے کی وجہ سے دنیا بھر کے اخباروں اور نیوز ویب سائٹس پر اس خونریز کارروائی کو نمایاں کوریج دی گئی ہے۔ اِس حملے سے انتہا پسند عالمی توجہ حاصل کرنے کے متمنی تھے۔
سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملے کا ہدف، اوقات اور طریقہ کار بالکل ویسا ہی تھا، جیسا کہ جہادی امریکی شہر اورلینڈو اور فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ڈھاکا میں دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں بیس افراد میں سے اٹھارہ غیر ملکی تھے۔
اس کارروائی میں تقریبا سبھی غیر ملکیوں کو خنجروں سے وار کر کے ہلاک کیا گیا جبکہ یہ حملہ آور خود کار جدید ہتھیاروں سے بھی لیس تھے۔ اس دہشت گردانہ کارروائی میں زندہ بچ جانے والوں نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے غیر ملکیوں کو چن چن کر ہلاک کیا۔ یہ حملہ اس لیے بھی غیر معمولی دھچکے کا باعث رہا کیونکہ یہ رمضان کے آخری دنوں میں کیا گیا۔
160 ملین نفوس پر آباد بنگلہ دیش میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن یہ ملک سرکاری طور پر سکیولر ہے۔ نئی دہلی میں واقع تھنک ٹینک ’ویویک آنند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘ سے وابستہ کے جی سریش کا کہنا ہے، ’’حملہ آوروں نے جن لوگوں کو خنجروں کے وار کر کے ہلاک کیا، اس سے انہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جہاد کے کسی درجے تک بھی جا سکتے ہیں۔‘‘
سریش کے مطابق، ’’غیر ملکیوں میں مقبول اس ریستوان پر جمعے کی شب اس طرح حملہ کرنا، واضح کرتا ہے کہ حملہ آور کس کو ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہ پیغام دینے کی کوشش میں ہیں کہ وہ صرف مغربی باشندوں کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مانیٹرنگ گروپ سائٹ کے مطابق انتہا پسند گروہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم ڈھاکا حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں داعش اور القاعدہ فعال نہیں ہے۔ یہی دہشت گرد گروہ ماضی میں بھی ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔
ہوم منسٹری کے مطابق اس کیفے میں حملہ کرنے والے افراد کی لاشوں کی شناخت سے معلوم ہوا ہے کہ ان کا تعلق ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ نامی ایک مقامی گروہ سے تھا۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں داعش کو کوئی کردار نہیں ہے۔
امریکا میں Austin Peay State یونیورسٹی سے وابستہ بنگلہ دیشی اسکالر تاج ہاشمی کا کہنا ہے کہ اب ڈھاکا کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ملک میں لوگوں کی ہلاکتوں میں عالمی سطح پر فعال اسلام پسندوں کا کردار بھی ہے۔ ہاشمی کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کارروائی میں داعش ملوث تھی۔
ڈھاکا لبرل آرٹس یونیورسٹی سے منسلک مبشر حسن کا خیال ہے کہ اس تازہ حملے کے بعد اب بنگلہ دیش کو سنیجدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ بنگلہ دیش کا نائن الیون ہے۔ بنگلہ دیش اب دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بن گیا ہے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں اس انتہا پسندی کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں، جس کے تحت وہ صرف اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے جبکہ دوسری طرف ان انتہا پسندوں کو پنپنے کا وقت مل رہا ہے۔
معروف بنگلہ دیشی کالم نگار ظفر سبحان حکومت پر زور دیتے ہیں کہ اسے اب مسلسل انکار کرنے کے رویے کو ترک کر دینا چاہیے۔ ڈھاکا ٹریبیون میں اپنے ایک تازہ کالم میں انہوں نے کہا کہ اس تازہ حملے میں بین الاقوامی گروہوں کے ملکی گروہوں سے روابط کو تسلیم نہ کرنا ایک غلطی ہو گی۔