بھارت: خواتین پر 'ایسڈ اٹیک‘ کے بڑھتے واقعات
16 نومبر 2021دہلی پولیس نے بتایا کہ تقریباً دو ہفتے تک زندگی اور موت سے کشمکش میں رہنے کے بعد 26 سالہ شادی شدہ خاتون پیر کی رات چل بسیں۔ تین نومبر کو دہلی کے بوانا علاقے میں ایک شخص نے ان پر تیزاب سے حملہ کر دیا تھا، جس سے ان کا چہرہ، گردن، چھاتی اور کمر بری طرح جھلس گئی تھی۔
ہلاک شدہ خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ ان کی شادی دس برس قبل ہوئی تھی۔ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ یہ بچے فی الحال اپنی والدہ کی موت سے لاعلم ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ ملزم 23 سالہ مونٹو کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس نے مذکورہ خاتون کو شادی کی پیش کش کی تھی لیکن خاتون نے اسے یکسر مسترد کردیا تھا۔ ملزم متاثرہ خاندان سے گزشتہ دو برسوں سے واقف تھا اور خاتون کو کئی مواقع پر ہراساں بھی کر چکا تھا۔
پانچ برس میں 'ایسڈ اٹیک‘ کے 1500واقعات
بھارت میں جرائم کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے 'نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو‘ (این سی آر بی) کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق سن 2014 سے سن 2018 یعنی پانچ برسوں کے دوران ملک میں 'ایسڈ اٹیک' کے 1483 واقعات درج کیے گئے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ ملک کے دورافتادہ علاقوں میں خواتین پر ہونے والے اس طرح کے حملوں کے کیس مختلف وجوہات کی بنا پر پولیس میں درج نہیں کرائے جاتے ہیں۔
523 کیس لیکن صرف 19مجرموں کو سزا
این سی آر بی کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں میں 'ایسڈ اٹیک‘ کے سب سے زیادہ 309 واقعات سن 2017 میں پیش آئے جبکہ سن 2018 میں 277 واقعات درج کرائے گئے۔ ان دو برسوں میں مجموعی طور پر 623 خواتین متاثر ہوئیں لیکن اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر برس صرف 149افراد کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی، جوکہ ہر سال پیش آنے والے واقعات سے نصف سے بھی کم ہے۔
سن 2018 میں سب سے زیادہ 61 فیصد یعنی 523 کیس مقدمے کے لیے عدالتوں تک پہنچے تاہم ان میں سے صرف 19واقعات میں ہی مجرموں کو سزا مل سکی۔
'قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو اب تو جاگ جانا چاہیے'
بھارت میں 'ایسڈ اٹیک' کا شکار ہونے والوں میں یوں تو مرد بھی شامل ہیں۔ تاہم حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 85 فیصد خواتین اور لڑکیاں ہی اس بھیانک جرم کا نشانہ بنتی ہیں۔
ایسڈ اٹیک کے لیے سب سے بدنام بھارت کی دس ریاستوں میں شامل اترپردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے اور کم از کم اب تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو جاگ جانا چاہیے۔
سابق اعلی پولیس افسر کے مطابق بھارتی کریمنل لا میں ایسڈ حملے کے دوران متاثرہ خاتون یا مرد کو اپنا دفاع کرنے اور قریب میں موجود افراد کی جانب سے دفاعی اقدامات کی مکمل اجازت دی گئی ہے تاہم لاعلمی کے سبب اس حق کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوپاتا ہے، جس کی وجہ سے حملہ آوروں کو فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔
سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس سنگھ کے مطابق تیزاب کا ذخیرہ اور اس کی فروخت تشویش کی بات ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں اور سپریم کورٹ نے رہنما خطوط بھی وضع کردیے ہیں اس کے باوجود بھارت میں باتھ روم صاف کرنے کے مقبول کیمیکل کے طورپر تیزاب ہر جگہ کھلے عام فروخت ہوتاہے۔ کوئی بھی شخص صرف 25 روپے میں تیزاب کی ایک بوتل خرید سکتا ہے۔
ذہنی تسکین بھی تیزاب حملوں کا ایک سبب
وکرم سنگھ کا کہنا تھا،''تیزاب سب سے سستا ہتھیار ہے۔ پستول کی نہایت خراب کوالٹی کی ایک گولی بھی 150روپے سے زیادہ میں ملتی ہے جبکہ دیسی ہتھیار کی قیمت الگ ہے۔ ایسے میں قاتل تیزاب کو سب سے سستا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ پستول کے پکڑے جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے جبکہ تیزاب کو آسانی سے زمین میں بہایا جا سکتا ہے۔"
سابق اعلی پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پیسے کی بات تو اپنی جگہ لیکن تیزاب حملے کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ایسے حملہ آوروں کو متاثرہ شخص کو انتہائی تکلیف کی حالت میں دیکھ کر ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ انتہائی انتقامی جذبے سے مغلوب افراد چاہتے ہیں کہ وہ متاثرہ شخص کو ذہنی، جسمانی اور جذباتی ہر لحاظ سے معذور بنادیں۔
سخت قوانین کی ضرورت
وکرم سنگھ کا کہنا تھا کہ اگر تیزاب کے حملوں کو روکنا ہے تو بھارت کو بھی اس حوالے سے بہترین بین الاقوامی ضابطوں پر عمل کرنا ہوگا۔ مثلاً کمبوڈیا نے تیزاب کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک خصوصی قانون بنایا گیا ہے، جس میں 'ایسڈ اٹیک' کے حوالے سے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی بھی ایک اہم پہلو ہے۔ بھارت میں آج کی تاریخ میں 63 فیصد متاثرین کو کوئی معاوضہ نہیں مل سکا ہے۔