بھارت: خواتین کی سلامتی کے لیے موبائل فونز میں ’پینک بٹن‘
26 اپریل 2016یہ باتیں ممبئی سے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک جائزے میں کہی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ بھارت کی مواصلات اور ٹیکنالوجی کی وزارت نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنوری 2018ء سے ہر موبائل فون کے اندر جی پی ایس یعنی گلوبل پوزیشننگ سسٹم کی موجودگی بھی لازمی ہو گی۔ اس سے پہ پتہ چلایا جا سکے گا کہ مدد طلب کرنے والا شخص کس مقام پر موجود ہے۔
پیر کے روز جاری کیے گئے اس بیان کے مطابق ’ٹیکنالوجی کا واحد مقصد انسانوں کی زندگی کو بہتر بنانا ہے اور اس کا اس سے بہتر استعمال کیا ہو گا کہ اسے خواتین کی سلامتی کے لیے استعمال کیا جائے‘۔
اس وزارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پانچ یا نو کے ہندسے کو مسلسل دبا کر رکھنے سے متعلقہ اداروں کو خود بخود ایمرجنسی کال چلی جایا کرے گی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ سمارٹ فونز کے ذریعے ایمرجنسی کال کرنے کے لیے پاور کے بٹن کو تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین مرتبہ دبانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ابھی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ بھارت اپنے ایک ارب سے زائد صارفین کے ساتھ دنیا کا موبائل فونز کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہے۔
بھارت میں خواتین کی سلامتی کے حوالے سے خدشات میں دارالحکومت نئی دہلی میں 2012ء میں پیش آنے والے اُس واقعے کے بعد سے بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے، جب ایک 23 سالہ طالبہ کو چلتی بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور پھر بس سے نیچے پھینک دیا گیا تھا۔ یہ طالبہ بعد ازاں اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی۔ اسی طرح نئی دہلی ہی میں یُوبر کمپنی کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے اُس کیس کو بہت شہرت ملی تھی، جس میں عدالت نے اُسے اپنی ایک خاتون مسافر کے ساتھ جنسی زیادتی کے لیے قصور وار قرار دے دیا تھا۔
2012ء کے چلتی بس کے واقعے کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور جنسی زیادتی کے مجرموں کے خلاف زیادہ سخت قوانین کا مطالبہ کیا جانے لگا تھا۔ ان مظاہروں اور مطالبات کے باوجود 2014ء میں بھارت بھر میں خواتین کے خلاف تین لاکھ سینتیس ہزار نو سو بائیس جرائم کا اندراج ہوا، جن میں ریپ کے چھتیس ہزار سے زائد کیسز بھی شامل تھے۔ یہ تعداد اُس سے پچھلے سال کے مقابلے میں نو فیصد زیادہ تھی۔
کچھ سیاستدانوں اور پولیس افسران نے اس امر پر زور دیا تھا کہ خواتین کو اپنے دفاع کی تربیت حاصل کرنی چاہیے، ’شائستہ کپڑے‘ پہننے چاہییں اور تاریکی ہو جانے کے بعد گھر سے نکلنا ہی نہیں چاہیے۔ اس طرح کے مشوروں پر حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تھا۔